آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اس لیے ایک مراقبہ بتاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے کل میرے دل کو خاص طور سے عطا فرمایا کہ جب کبھی غیراللہ پرنظر پڑجائے اور اس کی طرف دل کھنچ جائے یا غیراللہ کی یاد ستائے، تو فوراً اپنے بارے میں سوچو کہ ہم مرگئے ہیں اور دس ہزار کیڑے ہمارے آلاتِ گناہ کو کھا رہے ہیں، سارے اعضا گل سڑ گئے ہیں، شرم گاہ میں کیڑے رینگ رہے ہیں، آنکھوں کے حلقوں میں کیڑے رینگ رہے ہیں،یہ دن آنے والا ہے تو سمجھو کہ یہ دن آچکا اور جسم گل سڑگیا، لہٰذا چند دن کے لیے کیوں اپنے اللہ کو ناراض کروں اور کیوں اللہ کے غضب کو خریدوں؟ اسی طرح سوچو کہ جو شکلیں آج پاگل کررہی ہیں قبروں میں ان کے حلیے بگڑنے والے ہیں، قبروں میں ان کے گالوں کو کیڑوں نے کھالیا ہے اور دانت بغیر ہونٹوں کے نظر آرہے ہیں، رسیلی آنکھوں میں کیڑے گھسے ہوئے ہیں، نہ کالے بال ہیں نہ گورے گال ہیں نہ آنکھوں کا جمال ہے، قبر کھود کر دیکھو گے تو ایک عضو بھی نہیں ملے گا ؎ جو قبرِ کُہن اُن کی اُکھڑی تو دیکھا نہ عضوِ بدن تھا نہ تارِ کفن تھابدنظری کےمتعلق نفس کے مکر و کید ۱) بدنظری بصورتِ محبت وشفقت (اسی گفتگو کے دوران ارشاد فرمایا کہ) بعض لوگوں کو ان کا نفس محبت کے رنگ میں بدنظری کراتا ہے۔ بعض لوگ ایئرہوسٹس سے بڑے اخلاق اور محبت سے بات کرتے ہیں کہ بیٹی ایک گلاس پانی دے دیجیے، بیٹی ایک پیالی چائے لادیجیے، دیکھے جارہے ہیں اور بیٹی بیٹی کہے جارہے ہیں۔ بیٹی کہنے سے کیا وہ بیٹی ہوجائے گی؟ اور بعض اس سے پوچھتے ہیں کہ آپا آپ کہاں رہتی ہیں؟ ارے گلشن اقبال میں! ارے میں بھی تو وہیں رہتا ہوں۔ بتائیے! اس گفتگو کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں خبر بھی نہیں کہ آپا آپا کہہ کر نفس چھاپہ مار رہا ہے اور اُنہیں کیسا اُلو بنا رہا ہے اور کتنے گناہوں میں ذرا سی دیر میں مبتلا کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَ زِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ ؎ ------------------------------