آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
آپ تاریخ دیکھ لیجیے، بڑے بڑے علماء نے اپنی اصلاح کے لیے اﷲ والوں سے رجوع کیا ہے۔ مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ بانی دیوبند کا علم کتنا تھا، مولانا رشید احمد گنگوہی قُطب العالَم بخاری شریف پڑھایا کرتے تھے، ان کا کتنا علم تھا، مگر اپنے علم سے اپنی اصلاح نہ کرسکے، دونوں نے حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنا پیر بنایا اور ان کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔صحبتِ اہل اللہ کا فیض حکیم الامت فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اور مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا گنگوہی کے پاس علم تو تھا، مگر برکت اور آسمانی واردات سے ہم لوگ محروم تھے، صرف کُتب بینی تھی، مگر جب حاجی صاحب کی زیارت سے قطب بینی کی اور ان کی محبت اور ان کی صحبت نصیب ہوئی تو آسمان سے علوم آنے لگے ؎ میرے پینے کو دوستو سن لو آسمانوں سے مے اُترتی ہے اور پھر فرمایا کہ جب ہم عالم ہو کر مدرسوں سے نکلے تھے تو ہماری تقریریں ہوتی تھیں مگر ان میں اثر نہ تھا، دردِ دل نہ تھا، زبان میں وہ تاثیر نہ تھی ، ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہ تھا، مگر حاجی صاحب سے تعلق کے بعد اﷲ نے اس قدر اثر ڈالا کہ حضرت حاجی صاحب کی برکت سے جہاں بھی تقریر ہوتی تھی تو اتنے علوم وارد ہوتے تھے کہ بڑے بڑے وکیل اور بیرسٹر اور جج کہتے تھے کہ اس کو کس نے مولوی بنا دیا؟یہ ایسے دلائل پیش کرتا ہے کہ اگر یہ جج یا بیرسٹر ہوتا تو عدالت کو ہلا کررکھ دیتا۔ کانپور میں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا وعظ سن کر ایک فارسی داں بڈھے بیرسٹر نے پوچھا ؎ تو مجمل از جمال کیستی تو مکمل از کمال کیستی تجھ کو یہ جمالِ علم کہاں سے حاصل ہوا؟تجھ کو یہ کمال کہاں سے حاصل ہوا کہ زبانی ایسےایسے دلائل دیے؟ تو حکیم الامت نے جواب دیا ؎ من مجمل از جمالِ حاجیم من مکمل از کمالِ حاجیم