آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حالاں کہ میں حکیم ہوں اور باقاعدہ پڑھا لکھا رجسٹرڈ حکیم ہوں، طبیہ کالج کا سر ٹیفکیٹ بھی ہے، لیکن آپ لوگوں نے مجھے کبھی دواخانے میں دیکھا؟ میرا ان چیزوں میں دل ہی نہیں لگتا، دواخانے اور کتب خانے میں ملازمین ہیں، ان کو تنخواہ دیتا ہوں اور اپنا وقت بچاتا ہوں۔اہل اللہ دل کو اللہ کےلیے فارغ رکھتے ہیں حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ جارہے تھے کہ قلم نکال کر کاغذ پر کچھ لکھا اور کاغذ جیب میں ڈال کر مفتی شفیع صاحب سے پوچھا کہ بتائیے میں نے کیا کیا؟ مفتی اعظم پاکستان نے عرض کیا کہ میں نے اتنا دیکھا کہ آپ نے کاغذ پر کچھ لکھ کر کاغذ جیب میں رکھ لیا۔حکیم الامت نے فرمایا کہ ایک چیز کی یاد آرہی تھی، دل میں بار بار تقاضا تھا کہ کہیں بھول نہ جاؤں، تو میں نے دل کا بوجھ کاغذ پر رکھ دیا اور دل کو اﷲ کے لیے خالی کرلیا تاکہ دل میں سوائے اﷲ کے کچھ نہ ہو، دل میں جو خوفِ نسیاں تھا وہ میں نے کاغذ پر نوٹ کر کے کاغذ جیب میں رکھ لیا۔ اﷲ والوں نے اس طرح اپنے دل کو فارغ کیا۔ اعجاز الحق، مصطفیٰ کامل یا مولانا منصور صاحب ان تینوں میں سے کوئی بھی عمدہ آواز میں اشعار پڑھنے والا مل جاتا تو میں اسے ملاوی بھی ساتھ لے جاتا، اﷲ سے مانگتا ہوں کہ کوئی امیر خسرو اختر کو بھی نصیب فرما۔حضرت امیر خسرو کا عشقِ شیخ امیر خسرو دہلی کے سلطان نظام الدین اولیاء رحمۃ اﷲ علیہ کے اتنے چہیتے اور پیارے شاعر تھے کہ جب سلطان نظام الدین اولیاء کا جنازہ جارہا تھا تو امیر خسرو نے یہ شعر پڑھا ؎ سر و سیمینا بصحرا می روی سخت بے مہری کہ بے ما می روی اے میرے پیارے مرشد! آج آپ قبرستان کی طرف جارہے ہیں، انتہائی بے مروّتی ہے کہ میرے بغیر اکیلے جارہے ہیں ؎ اے تماشا گاہِ عالم روئے تو تو کجا بہر تماشا می روی