آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
مقامات پر خرچ کرلیا، کیوں کہ دنیاوی معشوقوں کا حاصل یہی ہے۔ آنکھوں سے، کالے بالوں سے، گورے گالوں سے اور نازک لبوں سے عشقِ مجازی کا آغاز ہوتا ہے اور منتہاء اس کا پیشاب پاخانے کے مقامات ہوتے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ان مقامات میں مشغول ہونے کو حرام قرار دے دیا ؎ عشقِ بتاں کی منزلیں ختم ہیں سب گناہ پر جس کی ہو انتہا غلط کیسے صحیح ہو ابتداعاشقِ مجاز نہایت غدّار اور دھوکا باز ہوتا ہے اور چند روز کے بعد جب حسن بگڑ گیا تو پیشاب پاخانے کے مقامات وہ مفت میں بھی دے اورگفٹ بھی پیش کرے تو وہاں سے بھاگتے ہیں، تب معشوق کہتا ہے کہ سمرقند اور بخارا جو آپ مجھ پردے رہے تھے اب لائیے، تو یہ عاشقِ مجاز دھوکے باز، نہایت غدّار اور کتے اور گدھے سے بدتر بدمعاش کمینہ کہتا ہے کہ اب تو آلو بخارا بھی نہیں دوں گا۔سمرقند و بخارا کے بجائے آلو بخارا کیا، آلو بھی نہیں ملتا، کیوں کہ اب تمہارے اندر وہ پانی نہیں رہاجس پر میں مرا تھا، تالاب تو وہی ہے مگر پانی وہ نہیں ہے، اسٹرکچر تو وہی ہے فنشنگ وہ نہیں رہی، اسی لیے میں نے کہا ہے ؎ میرؔ کا معشوق جب بڈھا ہوا بھاگ نکلے میر بڈھے حسن سے اﷲ کے لیے مرنے والوں پر مر کر اپنی حیات کو تباہ مت کرو، زندگی ایک ہی دفعہ ملتی ہے دوبارہ کوئی نہیں آئے گا، اگر زندگی دو تین دفعہ ملتی تو کہتے کہ چلو ایک زندگی میں مزے لے لو دوسری زندگی میں توبہ کرکے ولی اﷲ ہوجانا، حیات تو ایک ہی دفعہ ملتی ہے، جانے کے بعد کوئی واپس آئے گا؟ تلافی مافات اور معصیت سے توبہ کرنے کے لیے ایک ہی دفعہ حیات ملی ہے کہ چاہے جنتی بن جاؤ، چاہے جہنمی بن جاؤ، چاہے ولی اﷲ بن جاؤ، چاہے سور اور کتے کی موت مرجاؤ۔ولی اللہ بننا بہت آسان ہے اس لیے اپنے دوستوں سے دردِ دل سے کہتا ہوں کہ ولی اﷲ بننا بہت آسان ہے، بس خراب کام نہ کرو۔ اس راستے میں تو کام کرنا ہی نہیں ہے، اﷲ نے اپنی دوستی کی بنیاد کام نہ کرنے پر رکھی ہے کہ بُرے کام