آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
لاکھوں بوتل کا نشہ لیے ہوئے سترہ اٹھارہ میل دور سے پیدل چل کر حاضر ہوا اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھی پھر میں نے حضرت سے عرض کیا کہ میرے قلب میں کچھ مضامین مثنوی مولانا روم کی شرح کے ہیں، وہ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں تو حضرت نے قرآن شریف اور مناجات مقبول بغل میں لیا اور خانقاہ آکر ایک تخت پر بیٹھے اور فرمایا سناؤ۔ میں نے چھ بجے شروع کیا تو گیارہ بج گئے، میری تقریر میرے شیخ سنتے رہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، ایسے دردِ دل سے میں نے مثنوی کی شرح پیش کی کہ حضرت روتے رہے، جب گیارہ بج گئے اور میرا مضمون ختم ہوا تو حضرت نے فرمایا کہ کیا کھاؤ گے؟ یعنی حضرت اتنا خوش ہوئے، یہ جملہ معمولی نہیں ہے کہ اختر کیا کھاؤ گے آج؟میں نے کہا: حضرت جو آپ کھلائیں۔ حضرت نے فوراً اندر جاکر زور سے فرمایا کہ اختر کے لیے آج آلو ڈال کے طہری (پیلے چاول) پکاؤ۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ مجھ پر شیخ کی جو مہربانی تھی، آج شیخ کی غلامی کے صدقے اختر کو یہ سعادت نصیب ہورہی ہے۔ ابھی بتاؤ کتنی دیر ہوگئی! میں بیمار بھی پڑ گیا تھا، ڈربن میں سارا پروگرام کینسل کرادیا، لیکن ؎ مر جاتا ہوں پھر جی جاتا ہوں یعنی وہاں بالکل مرگیا تھا، ایک دن میں ہی اتنا ضعف ہوا کہ بس، لیکن اﷲ تعالیٰ دوبارہ پھر ہمت دے دیتے ہیں، دوبارہ پھر اٹھا دیتے ہیں۔ دیکھو! میرے جتنے مضمون اور وعظ شایع ہورہے ہیں اﷲ تعالیٰ اپنے کرم سے میرصاحب کو توفیق دے رہا ہے، یہ بعض وقت رات بھر نہیں سوتے، یہ ان کے لیے صدقۂ جاریہ ہے، دعا کرو کہ اﷲ اپنی رحمت سے قبول فرمائے اور ان کو خوب اچھی صحت عطا فرمائے، اﷲ مجھ کو بھی، ان کو بھی اور جتنے میرے مضامین ہیں اﷲ ان کے ہاتھ اور قلم سے سب محفوظ فرما دے او رصدقۂ جاریہ بنا دے اور ان کے قلب میں سکون اور میری ایسی محبت ڈال دے کہ کبھی میری ناراضگی کی بدگمانی کا وسوسہ بھی ان کو نہ آئے۔ مگر اس دعا میں ناغہ نہ کرو کہ یا اﷲ! میرے شیخ کے دل میں مجھ کو محبوب بنادے اور مجھے ایسی کسی حرکت سے اور الفاظ سے بچا کہ جو میرے شیخ پر ایک اعشاریہ گراں ہو۔حکیم الامت کی ناراضگی پر خواجہ صاحب کی کیفیت خواجہ صاحب کو دیکھیے۔ حضرت حکیم الامت ان سے کسی بات پر ناراض ہوگئے، لوگ خواجہ صاحب کی بڑی عزت کرتے تھے، اب لوگ ان کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں کہ آئیے آئیے خواجہ صاحب۔ خواجہ صاحب