آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تھے اور حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب سے بھی فرمایش کرتے تھے کہ اشعار سنائیے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نام کے نقشبندی تھے ورنہ بڑے بڑے چشتی بھی ان کے سامنے کچھ نہیں تھے، سر سے پیر تک عاشق تھے، ایسے اشعار کہتے تھے کہ کچھ مت پوچھو اور ان کے اشعار علم کی روشنی میں تھے ؎ محسوس لگا ہونے کہ دل عرشِ بریں ہے اﷲ رے یہ ان کی ملاقات کا عالمولی اللہ بننے کا راستہ بس ولی اﷲ بننے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے کو غلام سمجھو اور مالک کی خوشیوں کو اپنی خوشیوں پر مقدم رکھو اور اپنی خوشیوں کو پاش پاش کرتے رہو اور اﷲ تعالیٰ کی مرضیات کا احترام کرو، اس احترامِ رضائے حق پر بندہاﷲ تعالیٰ کا مرضیہ بنتا ہے، اس کا نفس پسندیدہ ہوجاتا ہے، مرضیہ مؤنث ہے تو میں نے نفس کو مؤنث استعمال کیا ہے، ہرانسان کا نفس مؤنث ہے اس لیے اس کو سختی سے ٹھیک کرو گے تب ٹھیک ہوگی۔ اور اس شخص پر زیادہ تعجب ہے جو دیکھنے میں قوی ہیکل، تگڑا اور غصہ والا بھی ہے اگر اس کی شان میں گستاخی کردو تو وہ کچا چبالے لیکن اﷲ کی ناراضگی میں اسے غصہ نہیں آتا، کیسا ناپاک اور بے غیرت اور بے حیا ہے یہ شخص۔اصلی پہلوان کون ہے؟ میر صاحب! کیسا مضمون ہے یہ کہ اگر اس کے نفس کے خلاف ہوجائے تو مارنے کے لیے دوڑاتا ہے، طاقت بھی دکھاتا ہے، صاحبِ طاقت بھی ہے، لیکن اپنے نفس کی خواہش پر وہ ہاتھ جوڑ کر نفس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ لومڑی کے سامنے جو شیر ہاتھ جوڑلے وہ شیر نہیں ہے، وہ صورتِ شیر ہے حقیقتِ شیر نہیں ہے،اصلی پہلوان اور صاحبِ ہمت اور شیر وہ ہے جو اپنے نفس کو غلام بنا کر رکھے، نفس کو قتل کردو اور اس سے کہو کہ اگر تو نے کسی حسین کی طرف خیال کیا تو اے نفس یاد رکھ تیری دم میرے ہاتھ میں ہے، میں بجائے اس کے کہ حرام جگہ کھونٹا ٹھونکوں اے نفس پہلے تجھے پکڑکر تیرے ہی کھونٹا ٹھونکوں گا یعنی اتنی نماز پڑھواؤں گا کہ تیری چیخ نکل جائے گی۔گناہوں کی عادت سے چھٹکارہ کا طریقہ اسی لیے بزرگوں نے فرمایا کہ توبہ بھی کرو اور نفس سے بطور سزا چار رکعات نماز بھی پڑھواؤ تاکہ