آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
میں ہر جگہ نظر بچا کے غم اٹھاتے ہیں تو ایسے قلب کا اﷲ پیار لیتا ہے، آغوشِ رحمت میں اٹھاکر اس کے آنسوؤں کو اپنے دامنِ رحمت سے پونچھتا ہے۔ ا س کے بعد اس کو کیا مزہ آتا ہے! میرا شعر سنو ؎ ہمارے زخمِ حسرت پر انہیں یوں پیار آتا ہے کہ جیسے چوم لے ماں چشمِ نم سے اپنے بچے کو اور ایسے دلوں پر تجلیاتِ الٰہیہ متواترہ مسلسلہ وافرہ بازغہ عطا ہوتے ہیں۔ مرنے کے بعد یہ فیلڈ نہیں رہے گی، لہٰذا غنیمت جان لو اور زندگی کی ہر سانس کو اﷲ پر فدا کرنا سیکھ لو ان شاء اﷲ تعالیٰ سارے عالم کا مزہ پاجاؤ گے۔ جب میں مڈل اسکول میں پڑھتا تھا، تو بعضے ہل جوتنے والے ایک شعر پڑھتے جاتے تھے، میں سوچتا تھا کہ یہ جاہل لوگ ہیں مگر شعر کیسا بہترین پڑھتے ہیں۔ وہ شعر تھا ؎ عاشقی چیست بگو بندۂ جاناں بودن دل بدستِ دِگرے دادن و حیراں بودن سوئے زلفش گہہ نظر کردن و رویش دیدن گاہ کافر شدن و گاہ مسلماں بودن یہ ایک اﷲ والے کاکلام ہے، یہاں جاناں سے مراد شیخ ہے کہ شیخ کے کالے بالوں کو دیکھ کر اﷲ کی تجلیاتِ اسود کا مشاہدہ کرو، اس کا تعلق روح سے ہے، روح کو اندھیرے میں زیادہ فیض ہوتا ہے، اس لیے اکثر روشنی بند کر کے ذکر کیا جاتا ہے، سیاہ زلفوں میں تجلیاتِ قبض ہے اور چہرے پر تجلیاتِ بسط کا مشاہدہ ہےیعنی عالمِ عشق کے شب وروز دیکھتا ہوں، جب محبوب شیخ کے کالے بال دیکھتا ہوں تو عالمِ عشق کی شب میں آجاتا ہوں اور جب چہرہ دیکھتا ہوں تو عالمِ عشق کے دن کا مشاہدہ ہوتا ہے، گویا سورج نکل آتا ہے، دن اور رات دونوں کے تجلیاتِ لیلیہ ونہاریہ دیکھتا ہوں۔ یکم رجب المرجب ۱۴۱۹ ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۱۹۹۸ ء، بروز جمعرات، بعد عشاء، ڈربنشیخ سے ہر حال میں وفاداری کا سبق ارشاد فرمایا کہ مجھے ایک تلخ تجربہ ہوا۔ میرے مرشد شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہاں دوسو آدمیوں کا مجمع لگتا تھا، لیکن جب حضرت کو فالج ہوگیا تو مجمع آہستہ آہستہ ختم ہوگیا اور صرف دس بارہ آدمی رہ