آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تصور ہے وہ من وعن، مِنَ الْبِدَایَۃِ اِلَی النِّہَایَۃْقائم رہتا ہے، یہ ہے شرح ہدایہ۔ تو جس شخص کو اپنی حرام آرزو سے بچنے کی توفیق اور حوصلہ اور شیرانہ ارادے نصیب ہوجائیں وہ لومڑی کی طرح سلوک طے نہ کرے گا وَلَا یَرُوْغُ رَوْغَانَ الثَّعَالِبِ؎ اس کا ہر خونِ آرزو اس بات کی علامت ہے کہ اس کو جلد اﷲ ملنے والا ہے، لیلیٰ سے نظر بچانا دلیل ہے کہ اب اس کو مولیٰ ملنے والا ہے۔ اﷲتعالیٰ اپنے جن عاشقوں کو دین کے سرکاری کام کے لیے قبول فرماتے ہیں ان کو مٹی کے کھلونوں میں ضایع نہیں کرتے۔ یہ مٹی کے کھلونے ہیں جو چل پھر رہے ہیں، دنیا کے جتنے حسین ہیں سب مٹی کے کھلونے ہیں، اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو تصنیف وتالیف، درسِ حدیث، درسِ تفسیر، درسِ عشق اور درسِ محبت و معرفت سکھانے کے لیے منتخب کرتے ہیں، ہزاروں لاکھوں میں سے ان کا انتخاب ہوتا ہے ؎ نہ ہر گوہرے دُرَّۃُ التَّاج شُد نہ ہر مُرسلے اہلِ معراج شد برائے سر انجام کارِ ثواب یکے از ہزاراں شود انتخاب ہر موتی بادشاہ کے تاج میں نہیں لگتا، ہر رسول اہلِ معراج نہیں ہوتا، دین کا کام سرانجام دینے کے لیے ہزاروں میں سے کسی ایک کا انتخاب ہوتا ہے۔زندہ حقیقی بُری خواہشات کو مردہ کرنے سے ملتا ہے مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ کا ایک قصہ بیان کرتا ہوں۔ ایک تاجر نے ایک چڑیا کو قید کرکے پنجرے میں بند کر دیا، تو جس شہر سے اسے قید کر کے لایا تھا جب کسی تجارت سے اسی شہر جانے لگا تو چڑیا سے کہا کہ جس گلستان اور جس چمن میں تمہارا گھونسلہ اور نشیمن تھا میں اسی شہر میں جارہا ہوں، وہاں تمہاری کوئی چڑیا دوست ہے؟ اس نے کہا ہاں ایک چڑیا دوست ہے جس کا فلاں درخت پر نشیمن ہے اس کو میرا پیغام دے دینا کہ میں گرفتار ہوں، پنجرے میں ہوں اور یادِ گلستاں سے ہر وقت چشم تر ہوں اور میری چشم اشکبار اور قلب مضطر ہے۔ تاجر نے سوچا کہ یہ پیغام دینے میں کیا نقصان ہے؟ اس نے جاکر اُس چڑیا کو تلاش کیا اور کہا کہ ------------------------------