آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اتنے بڑے اﷲ والے تھے۔ایک مرتبہ ان کے پاس لکھنؤ کے علماء آئے ہوئے تھے، عشاء کے بعد مجلس شروع ہوئی اور صرف اشعار پڑھے گئے یہاں تک کہ تہجد کا وقت ہوگیا۔ مولانا محمد احمد صاحب کی نسبت اشعار سے منتقل ہوتی تھی جس کی برکت سے کئی لوگ اﷲ والے بن گئے۔ اﷲ والوں کے اشعار شاعری نہیں ہوتی، ان کا دردِ دل اور آہ شعر کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے ؎ چھپاتی رہیں رازِ غم چپکے چپکے مری آہیں نغموں کے سانچے میں ڈھل کے مولانا محمد احمد صاحب نے فرمایا کہ حضرت شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے ؎ شاعری مدِّ نظر ہم کو نہیں وارداتِ دل لکھا کرتے ہیں ہم ایک بلبل ہے ہماری رازداں ہر کسی سے کب کھلا کرتے ہیں ہم اُن کے آنے کا لگا رہتا ہے دھیان بیٹھے بٹھلائے اُٹھا کرتے ہیں ہمفیضانِ نگاہِ اولیاء تو حضرت کے پاس لکھنؤکے بڑے بڑے علماء آئے، لیکن مجلس میں تہجد تک صرف اشعار سنائے گئے، تہجد کے بعد پھر اشعار کی مجلس ہوئی پھر فجر کی نماز ہوئی اور پھر اشعار کی مجلس شروع ہوگئی پھر اشراق پڑھی گئی اور چائے پی کر لوگ واپس گئے۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے علماءِ ندوہ سے کہا کہ بُری نظرتو لگ جاتی ہے، اسلام اس کو تسلیم کرتا ہے، بخاری شریف کی حدیث ہےاَلْعَیْنُ حَقٌّ؎ تو حضرت نے فرمایا کہ اے علماء ندوہ !تم بُری نظر کو تسلیم کرتے ہو کہ ہرا بھرا درخت بُری نظر لگ جانے سے سوکھ جاتا ہے، گائے کو نظر لگ جائے تو دودھ ختم ہوجاتا ہے، بچوں کو لگ جائے تو بیمار پڑجاتے ہیں، تو جب بُری نظر کو تسلیم ------------------------------