آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
وصول کرنے کے لیے تھا۔آہ! یہی فرق ہے مکار اور نقلی پیروں اور سچے اللہ والے پیروں میں کہ سچے اللہ والے دنیائے حقیر پر نہیں مرتے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اگر کوئی مال دار ان سے کہے کہ آپ یہاں ایئرکنڈیشن میں آرام سے لیٹیں۔ آپ کو مرغی پلاؤ، قورمہ اور کباب خوب ملے گا، لیکن اللہ کی محبت سکھانے کا کام ہم کو نہیں چاہیے، تو اگر وہ اس مال دار کے یہاں پڑا رہے، تو سمجھ لو کہ یہ نقلی اور جعلی ہے، اور اگر سچا اللہ والا ہے تو اس کی پیشکش پر لات ماردے گا، وہ اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ اللہ کی محبت کو نشر کرنا چھوڑ دے، اور اس کی کیا عمدہ مثال حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دی کہ ایک لڑکی نے اپنی ساس سے کہا کہ جب میرے بچہ پیدا ہو تو مجھے جگا دینا، تو ساس نے کہا کہ بیٹی جب تیرے بچہ پیدا ہوگا تو تجھے جگانا نہیں پڑے گا تیرے اتنے زور سے درد اُٹھے گا کہ تو محلہ بھر کو جگائے گی۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اس لڑکی کوسمجھائے کہ چلّا مت تو کیا وہ خاموش رہ سکتی ہے؟ پس جس کے دل میں اللہ اپنی محبت کا درد پیدا کرتا ہے تو وہ خاموش نہیں رہ سکتا، وہ تو آواز لگائے گا اور دردِ محبت کے نشر پر مجبور ہوگا۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ من بہر جَمعِیّتےنالاں شدم جفت خوش حالاں و بد حالاں شدم مجھے جہاں بھی انسانوں کی کوئی جماعت نظر آتی ہے وہاں جاکر اللہ کی محبت میں رونے لگتا ہوں، اگر نیک بندے ہیں تو وہاں بھی روتا ہوں اور اگر گناہ گار ہیں تو وہاں بھی روتا ہوں، میرا دردِ دل ہر جماعت میں اپنا کام کرتا ہے، چاہے اچھے لوگ ہوں چاہے بُرے، میں ہر جگہ اپنی آہ اور اشکبار آنکھوں سے اللہ کی محبت کی دعوت دیتا ہوں تاکہ جو نیک ہیں وہ میرے رونے سے اور نیک ہوجائیں اور ان کی نسبت مع اللہ اور زیادہ قوی ہوجائے اور جو گناہ گار ہیں وہ گناہوں سے توبہ کرلیں اور اللہ کی محبت کا درد ان کے دل میں داخل ہوجائے۔حاصلِ سلوک ارشاد فرمایا کہ سلوک کا حاصل بتارہا ہوں، کیوں کہ یہ مجمع سارا مریدین و سالکین کاہے کہ اگر غیراﷲ کو نکالنے میں کوئی کوتاہی اور غفلت کی اور چوری چھپے کوئی حرام لذت حاصل کرنے کی کوشش کی تو بازِشاہی کے روپ میں تم نے چمگادڑوں والا کام کیا، سالک کے بھیس میں تم نے فاسقوں والا کام کیا اور تم نے