آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
کی ضرورت پو ری نہیں کرتے، یہاں اس کا خدشہ تھا کہ ذُو الْجَلَالِسے میرے بندے کہیں میری رحمت سے ناامیدنہ ہوجائیں اس لیے وَالْاِکْرَامِفرماکر اس خطرے کوزائل فرمادیاکہ میں سارے عالم سے بے نیاز توہوں،لیکن وَالْاِکْرَامِبھی ہوں یعنی صَاحِبُ الْفَیْضِ الْعَامْبھی ہوں کہ سارے عالم پر میرا فیض عام ہے، سارے عالم پر رحمت کی بارش کرتاہوں اور علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ نے تفسیر میں قافیہ بھی کیسا ملایا کہ وَالْاِکْرَامِ یعنی صَاحِبُ الْفَیْضِ الْعَامْجس کا فیض، بخشش اور مہربانی سارے عالم پر ہے، دشمنوں کافروں کو بھی روٹی دے رہا ہے، کیوں کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا، یہاں کچھ دن کھا پی لو،لیکن تم مجرم ہو کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ؎ ان کا فیض اتنا عام ہے کہ یہاں وہ مجرموں، خبیثوں، نالائقوں کو بھی غذا دیتے ہیں۔ اﷲ کے چار ناموں کی شرح ہوگئی، وقتاً فوقتاً ان کا وِرد رکھیں،ان شاء اﷲ نفع عظیم ہوگا۔خلافت کی شرائط ارشاد فرمایا کہ اگر ایک میل تک پانی نہیں ہے توشریعت کا حکم ہے کہ مٹی سے تیمم کرلو اور نماز پڑھ لو۔ توسوال یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ نے پانی کا خلیفہ مٹی کو کیوں بنایا؟ اس کاجواب اﷲپاک نے میرے دل کو عطافرمایا کہ پانی سے قریب تر کرہ، کرۂ ارض ہے، یعنی مٹی پانی سے قریب ہے۔ دوسرے مٹی میں تواضع ہے، کوئی اس پرچل رہا ہے، کوئی پیشاب کر رہاہے، بے چاری کچھ نہیں بولتی۔ معلوم ہوا کہ خلافت کے لیے دوشرائط ضروری ہیں: قریب ہو اور تواضع ہو، نفس میں تکبر اور اکڑفوں نہ ہو، جس کے دل میں جب تک یہ دوصفات نہ ہوں وہ خلافت کے قابل نہیں۔کفیل اور فیل دورانِ گفتگو مزاحاً فرمایا کہ ایک بات کہتا ہوں کہ اپنا کفیل اس کو بناؤ جو مثلِ فیل ہو۔ کفیل کے معنیٰ کم لوگ جانتے ہیں۔ کفیل معنیٰ مثلِ فیل یعنی ہاتھی کی طرح ہو، یہ کاف تمثیلیہ ہے۔ مراد یہ ہے کہ اپنا ذمہ دار مضبوط آدمی کوبناؤ۔ جو دیوار گررہی ہو اس پر ٹیک لگاؤگے تو اور جلدی گرجائے گی اور تم بھی اس میں دب جاؤگے۔ ------------------------------