آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کہ مَنْ اَ بُوْبَکْرٍ لَا اَعْرِفُہٗ کون ابوبکر؟ میں تو نہیں جانتا کہ ابو بکر کون ہے۔اللہ اکبر! ساری زندگی کا ساتھی بھی یاد نہیں آیا۔ جگر کے استاد نے کیاعمدہ شعر کہا ہے ؎ نمودِ جلوۂ بے رنگ سے ہوش اس قدر گم ہیں کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی (اصغرؔ) پھر حضرت عائشہ نے عرض کیاکہ اِبْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَابو قحافہ کے بیٹے یعنی دادا کانام لیا تو دادا کو بھی نہیں پہچانا، فرمایا:مَنْ اَبُوْقُحَافَۃَ لَااَعْرِفُہٗمیں نہیں جانتا ابو قحافہ کون ہے؟ مگر بعد میں جب آپ کی روحِ مبارک عرشِ اعظم سے نزول کرکے فجر کی نماز کی امامت کے لیے زمین پر آئی، اﷲ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ مسجدِ نبوی کے رن وے پر آپ کی روحِ مبارک کے جہاز کو اُتارا، تو حضرت عائشہ صدیقہ نے پوچھا:یا رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ وسلم)!آج کیا ہوگیا تھا؟ یہ کیا معاملہ تھا؟ تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! میری روح اور میں قرب کے اس اعلیٰ مقام پر تھے کہ جبرئیل علیہ السلام بھی وہاں نہیں جاسکتے تھے تو کیسے جاسکتی تھی؟اسی لیے آپ تہجد کے بعد نمازِ فجر سے پہلے حضرت عائشہ سے تھوڑی سی گفتگو بھی فرماتے تھے کَلِّمِیْنِیْ یَاحُمَیْرَاءُ؎یعنی اے حمیرا! مجھ سے باتیں کرو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو بعض اوقات پیار سےحمیرا کہتے تھے۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اس گفتگو کو عام میاں بیوی والی گفتگو مت سمجھو، آپ اپنے جہاز کو مدینے پاک کے رن وے پر اور مسجدِ نبوی میں فجر کی امامت کے لیے عرشِ اعظم سے آہستہ آہستہ اُتارتے تھے، جب جہاز اُترتا ہے تو آہستہ آہستہ اُترتا ہے۔حضرت مولاناشاہ عبدالغنی صاحبکی عاشقانہ عبادت یہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے حالات تھے۔ اب میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ایک غلام یعنی اپنے پیر کی بات بتاتا ہوں۔ میرے مرشد شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ رات کو تین بجے تہجد کے لیے اُٹھتے تھے اور سجدے میں بہت روتے تھے اور ماشاء اﷲ کئی پارے پڑھتے تھے، پانچ پارے تو ہمیشہ پڑھتے تھے، کبھی کبھی دس پارے بھی پڑھ لیتے تھے، مناجاتِ مقبول کی ساتوں منزل، قصیدہ بردہ مکمل، بارہ تسبیح مکمل اور اتنی عبادت کے بعد پھر اشراق بھی۔ ------------------------------