آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دوستاں ہے۔ اور نظر بازی اور زِنا و بدمعاشی یہ نصیبِ دشمناں ہے۔ ہندو، یہودی، عیسائی اس میں شریک ہیں۔ تو مسلمان اور سالک کو زیبا نہیں کہ وہ ایسی حرکت کرے جو نصیبِ دشمناں ہو، لہٰذا نصیبِ دوستاں والا غم اُٹھالو۔ میں اس پر آپ لوگوں کی تسلی کے لیے قسم کھاتا ہوں کہ یہ غم اٹھالو تو واللہ ایسا بے مثل مزہ پاؤگے کہ سارے عالم کا مزہ اللہ کے راستے کے غم کے اس مزہ کی لغت کو سمجھ بھی نہیں سکتا، کیوں کہ اہلِ عالم کی لغت مخلوق ہے اور یہ مزہ اللہ کا ہے جو غیر مخلوق ہے تو لذتِ خالق کو مخلوق کی لغت کیا سمجھ سکتی ہے۔حدیثاَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ…الخکی انوکھی شرح ارشاد فرمایا کہ گناہوں سے صحت بھی خراب ہو جاتی ہے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو یہ دعا سکھائی: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الصِّحَّۃَ وَالْعِفَّۃَ وَالْاَمَانَۃَ وَحُسْنَ الْخُلْقِ وَالرِّضَا بِالْقَدْرِ؎ اے اللہ! میں آپ سے صحت مانگتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ صحت مرادِ نبوت، مطلوبِ نبوت اور مسؤل ِ نبوت ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگنا تمام امت کے لیے تعلیم ہے کہ تم سب اللہ سے صحت مانگو، کیوں کہ اگر صحت نہ ہوگی تو نہ تم دنیا کے رہوگے نہ آخرت کے، اور دین کا کام بھی صحت پر موقوف ہے، اس لیے آپ نے صحت کا سوال کیا تاکہ ہم لوگ دین کا کام کرسکیں، اگر بیمار ہوں گے تو دین کا کام کیسے ہوگا؟حدیثِ بالامیں الفاظ کے تقدم و تأخر کے اسرارِ عجیبہ صحت کے فوراً بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عفت کا سوال کیا اور فرمایا وَالْعِفَّۃَاور ہمیں پاک دامنی نصیب فرما یعنی بدنظری، بدمعاشی، زِنا، شراب وغیرہ سے محفوظ فرما، کیوں کہ یہ سب پاک دامنی کے خلاف ہیں۔ الفاظِ نبوت کی ترتیب اور تقدیم و تاخیر میں اسرار ہوتے ہیں۔ صحت کے بعد عفت کی درخواست کیوں سکھائی گئی؟ نبی سفیرِ خدا ہوتا ہے، اس لیے اپنے نبی کی زبانِ مبارک سے کہلادیا کہ عفت مانگیے تاکہ میرے بندے عفیف رہیں اور جب عفیف رہیں گے تو صحت مند رہیں گے۔ معلوم ہوا کہ صحت کا راز عفت اور پاک دامنی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو زانی اور بدکار ہوتے ہیں ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے۔ ------------------------------