آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حضرتِ والا کی شرحِ مثنوی پر علامہ بنوری کا ارشادِ مبارک اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے میرا صرف ایک شعر دیکھا، وہ کیا شعر تھا کہ ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہیں جو اﷲ کو اپنا دل دیتے ہیں اور مرنے والی لاشوں پر نہیں مرتے، جس نے ماں کے پیٹ میں دل بخشا اسی کو دل دیتے ہیں، تو حضرت مولانا بنوری رحمۃاﷲ علیہ نے جو اتنے بڑے عالم اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردِ رشید تھے، میری فارسی کی مثنوی دیکھ کر فوراً فرمایا کہ لَا فَرْقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ مَوْلَا نَا رُوْم یعنی مجھے اختر میں اور مولانا روم میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا یعنی کلام کے اعتبار سے، مقام کے اعتبار سے نہیں۔ لیکن مثنوی کی جو میں نے شرح لکھی ہے آج سارے عالم میں غلغلہ مچ رہا ہے۔مولانا منظور احمد نعمانی لکھنوی کا ارشادِ مبارک لکھنؤ کے مولانا منظور نعمانی نے مجھ سے خود فرمایا کہ اب میں کوئی کتاب نہیں پڑھتا، تیری ہی مثنوی مولانا روم میرے سرہانے رکھی ہے اور میں اسی کو پڑھ رہا ہوں۔ اﷲ کا شکر ہے بڑے بڑے علماء میری مثنوی پڑھ رہے ہیں۔حضرتِ والا سے اکابر کا تعلق و محبت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی عربی زبان میں مصنّف عبدا لرزاق کا حاشیہ لکھنے والے جس نے عربوں میں غلغلہ مچایا اور حضرت مولانا علی میاں ندوی ان دونوں نے حضرت مولانا محمد احمد صاحب سے درخواست کی کہ حضرت آج اختر سے مثنوی کا درس سنوا دیجیے، تو میں نے مثنوی کا درس سنایا۔ میں نے اپنے شیخ شاہ عبدا لغنی صاحب کو بھی پانچ گھنٹے مثنوی کا درس سنایا کہ حضرت میرے قلب میں اﷲ تعالیٰ نے اس اس شعر کے بارے میں یہ یہ مضامین عطا فرمائے ہیں توحضرت پانچ گھنٹہ سنتے رہے، اور روتے رہے، پھر میں نے یہ شعر پڑھا ؎