آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سال کی زندگی میں روزہ نماز کرلو، لیکن اگر تم نے اسّی سال عبادت کی تو ہم تم کو اسّی سال جنت میں نہیں رکھیں گے ہمیشہ جنت میں رکھیں گے، ضابطے اور قانون سے تو تم لوگ اسّی سال ہی جنت میں رہ سکتے ہو لیکن ہمارا کرم، ہماری رحمت، ہماری مہربانی سے تم کو جنت سے کبھی خروج اور ایگزٹ نہیں ہوگا، کروڑہا کروڑ سال بلکہ جنت میں رہنے کی کوئی میعاد نہیں کیوں کہ زندگی کے دن بنتے ہیں سورج سے، دن سے ہفتہ، ہفتوں سے مہینہ، مہینوں سے سال، تو وہاں سورج نہیں ہوگا اس لیے تم ایک کروڑ سال کے ہوجاؤگے کسی کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ ایک کروڑ سال کا ہے یا دس کروڑ سال کا ہے، جوانی ہمیشہ قائم رہے گی۔ تو جب جنت میں سورج نہیں ہوگا تو روشنی کہاں سے ہوگی؟ جنت میں اﷲ کے نور سے روشنی ہوگی جیسے فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے دس منٹ پہلے جو اُجالا ہوتا ہے ویسا اُجالا ہوگا جو اﷲکے نورسے ہوگا۔انسانی زندگی کے تین مقاصد تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے تم کو تین مقصد کے لیے پیدا کیا ہے لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًااس آیت کی تفسیر زبانِ نبوت سے اختر آپ کی مسجد میں پیش کرر ہا ہے، چودہ سو برس پہلے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر فرمائی تھی کہ اس کے تین معنیٰ ہیں: نمبر ایک لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَتَمُّ عَقْلًا وَّفَہْمًاتاکہ تم کو آزمائیں کہ تم بے وقوف، بین الاقوامی ڈونکی اینڈ منکی ہو یا تمہارے دماغ اور کھوپڑی میں عقل ہے کہ تم کو پردیسی بنا کر بھیجا اب تم وطن کی تعمیر کرتے ہو یا پردیس میں رہ کر وطن کو بھول جاتے ہو، ہم تمہارا امتحان لیں گے کہ تم عقل مند ہو یا بے وقوفی کرتے ہو، تم دنیا میں مسافر بن کر گئے اور اپنے کو وہیں کا نیشنل سمجھ لیا، جب ہم واپس بلائیں گے تب پتا چلے گا کہ تمہارا گھر کدھر گیا، مرسڈیز کدھر گئی، پاپڑ سموسے کدھر گئے، سب دھرا رہ جائے گا، قبر میں سوائے کفن کے کچھ نہیں جائے گا۔ نمبر دو لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَوْرَعُ عَنْ مَّحَارِمِ اللہِیہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تفسیر ہے جن کے سینۂ مبارک پر قرآنِ پاک نازل ہوا، فرماتے ہیں کہ تا کہ اﷲ تم کو آزمائیں کہ کون حرام باتوں سے، اﷲ کے غضب سے اور اﷲ کے غصے سے بچتا ہے، لیکن واہ رے میرے اﷲ! ایک ذرا سا آنسو کا قطرہ نکالو اور ذرا سا رونا شروع کرو سب خطا معاف ہوجاتی ہے، اﷲ کا غضب رحمت سے بدل جاتا ہے، بجائے اس کے کہ سزا ہو عطا ہونے لگتی ہے، صاحبِ سزا صاحبِ عطا ہوجاتا ہے جیسے ماں کی چھاتی میں دودھ نہیں ہوتا خون بھرا ہوتا ہے لیکن چھوٹا بچہ جب روتا ہے تو بچے کے رونے سے ماں کی رحمت جوش میں آتی ہے اور اس کی چھاتی کا خون