آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۶؍اکتوبر ۱۹۹۸ء ،بروز منگل، بعدعشاء ، نوبجے شب مجلس برمکان مفتی حسین بھیات صاحب جنوبی افریقہ کے مختلف مقامات سے آئے ہوئے اکابرعلمائےکرام اور دیگر سالکین حضرتِ والا سے ملاقات کے لیے مفتی صاحب کے مکان پر تشریف لائے۔ اس موقع پر حضرتِ والا نے مندرجہ ذیل ملفوظات ارشاد فرمائے:کیفیتِ احسانیہ کی قوت و ضعف کا راز ارشاد فرمایا کہ شیخ جتنا قوی النسبت اور جتنی قوی کیفیتِ احسانیہ کا حامل ہوتا ہے اتنی ہی قوی نسبت اور کیفیتِ احسانیہ اس کے مریدین میں منتقل ہوتی ہے۔ صحابہ کو ایمان اور اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ملا اور احسانی کیفیت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ نبوت سے ملی ۔ اس کے بعد اب قیامت تک کسی کو پیغمبر کا قلب نہیں مل سکتا، اس لیے اب کوئی صحابی نہیں ہوسکتا، صحابی جیسا ایمان و احسان اب کسی کا نہیں ہوسکتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کیفیت ِاحسانیہ اُمتی سے اُمتی کے قلب میں منتقل ہورہی ہے،تو کہاں نبی اور کہاں اُمتی۔ نبی کے قلب مبارک سے جو ایمان و احسان اُمتی کے قلب میں منتقل ہوا وہ ایمان و احسان اُمتی سے اُمتی کے قلب میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے؟ اس لیے دنیا کا بڑے سے بڑا ولی کسی ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ لیکن کیفیتِ احسانیہ ایک کُلّی مشکک ہے، نبی کے قلب کی احسانی کیفیت تو اب کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، کیوں کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا ،لہٰذا اب یہ کیفیتِاحسانیہ اُمتی سے اُمتی کے قلب میں منتقل ہوگی۔کسی صاحبِ نسبت اُمتی کے قلب میں جس درجےکی کیفیتِ احسانی ہوگی اسی درجےکی دوسرے اُمتی میں منتقل ہوگی، اس لیے شیخ جتنا قوی النسبت اور حاملِ کیفیت ِاحسانیہ قویہ ہوگا اتنی ہی قوی کیفیت ِاحسانی دوسرے کے قلب میں منتقل ہوگی۔حفاظتِ نظر کے مضمون پر ایک نادان کا اعتراض اور حضرتِ والا کا جواب حضرت اقدس دامت برکاتہم کے خلیفۂ مجاز حضرت مولانا یونس پٹیل صاحب دامت برکاتہم نے جو ڈربن سے حضرت والا کے استقبال کے لیے تشریف لائے تھے، حضرت والا سے عرض کیا کہ میں نے اپنی مجلس میں حفاظتِ نظر کے متعلق مضمون بیان کیا۔ ایک صاحب نے جو مجلس میں موجود تھے ،اگلے دن ایک اجتماع