آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اشعار کے درمیان تھوڑی تھوڑی نثر پیش کررہا ہوں تاکہ تجلیاتِ نظم بھی دیکھو اور تجلیاتِ نثر کا بھی مشاہد ہ کرو، آہ نثراً ہو یا نظمًاہو، دونوں ان شاء اﷲ ہمارے دل میں نور کا ذریعہ بنیں گے ۔نسبت مع اللہ سے محرومی کی دلیل غیرِ حق سے لگاتا ہے جو اپنا دل تیری اُلفت کے غم کا وہ حامل نہیں اس کی شرح سنو! جس کا دل غیر اﷲ پر اور مرنے والوں پر مرتا ہے ان کے عارضی جمال اور ڈسٹمپر کو دیکھتا ہے، یہ دلیل ہے کہ اس کے قلب میں مولیٰ نہیں ہے اور اس دلیل کی دلیل پیش کرتا ہوں۔ جس کے دل میں نسبتمع اﷲ اور اﷲ کے قرب کی دولت نہیں ہوتی وہی آنکھوں سے حسینوں کو دیکھتا ہے، جس کی نظر کا تالا کھلا رہتا ہے یہی دلیل ہوتی ہے کہ اس کا گھر ویران اور خالی ہے، آپ نے کبھی دیکھا کہ کسی مال دار کے گھر کا تالا کھلا رہتا ہو، تو جس کی آنکھیں کالی اور گوریوں پر کھلی رہتی ہیں یہ دلیل ہے کہ یہ شخص نسبت مع اﷲ کی دولت سے محروم ہے۔ کیوں صاحب! یہ دلیل کیسی ہے؟ آسان بھی ہے اور قریب الفہم بھی ہے۔ ابھی اس نظم کے بعد ایک نعت شریف سنوانے کا ارادہ ہے، کبھی ترقی من الادنیٰ الی الاعلیٰ کی جاتی ہے، آج کل جہازوں میں یہی ہورہا ہے، پہلے سلاد ٹماٹر وغیرہ پیش کرکے آدھا پیٹ بھر دیتے ہیں، بریانی وغیرہ بعد میں لاتے ہیں۔ بعض وقت تو مجھ کو دھوکا لگ گیا، میں سمجھا کہ شاید یہی ملے گا تو میں نے پیٹ بھر لیا، بعد میں جب بریانی آئی تو میں نے کہا ’’قہرِ دُرویش برجانِ دُرویش‘‘؎ آپ کا ہوں میں بس اور کسی کا نہیں کوئی لیلیٰ نہیں کوئی محمل نہیں آہ! کہاں مرتے ہو جغرافیہ بدلنے والوں پر ؎ حسینوں کا جغرافیہ میر بدلا کہاں جاؤ گے اپنی تا ریخ لے کر جتنے حسین دوست تھے ان کا بڑھاپا دیکھ کر حسن کی شان گر گئی میری نگاہِ شوق سے