آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
زیارت کی ہے، ان کی اماں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر میں نوکرانی تھیں، جب حضرت حسن بصری پیدا پیدا ہوئے تو وہ انہیں تحنیک کرانے امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس لے گئیں۔ کسی بزرگ سے کھجور وغیرہ چبوا کر بچے کے منہ میں ڈالنے کو تحنیک کہتے ہیں۔ تو حضرت عمر نے کھجور چبا کے خواجہ حسن بصری کے منہ میں ڈالی اور انہیں دو دعائیں دیں: اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِی الدِّیْنِ وَحَبِّبْہُ اِلَی النَّاسِ؎ اے اﷲ! اس کو دین کی سمجھ دے اور مخلوق میں پیارا بنادے۔ تو دیکھو جو مخلوق میں پیارا نہیں ہوتا اس سے دین نہیں پھیلتا۔ یاد رکھو! جو ہر وقت غصہ کرے گا اس کے بیوی بچے بھی اس سے دین نہیں سیکھیں گے اور جس ماحول میں رہے گا سب اس کے لیے بددعا کریں گے کہ اے خدا! اس کو موت آجائے تا کہ اس سے نجات ملے، لہٰذا ایسے زندگی گزارو کہ تمہاری زندگی کے لیے لوگ دعا کریں اور تمہارے مرنے پر روئیں کہ آہ! کیسا پیارا بندہ تھا، ہمارے اوپر کبھی غصہ نہیں ہوا۔ تو حضرت والا نے فرمایا کہ میں نے تین جگہ اس لیے بدلیں تاکہ چیونٹیوں کو کوئی اذیت نہ پہنچے۔ تو جب میں نے بخاری شریف کی شرح دیکھی تو دل خوش ہوگیا قَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ الْاَبْرَارِ الَّذِیْنَ لَایُؤْذُوْنَ الذَّرَّ وَ لَا یَرْضَوْنَ الشَّرَّ؎ خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ ابرار کی تفسیر فرماتے ہیں کہ جو چیونٹی کو بھی نہ ستائے اور گناہوں سے خوش نہ ہو۔حسنِ اخلاق کی تعلیم آج افسوس ہوتا ہے کہ اخلاق کے باب میں اس قدر گراوٹ ہے کہ حافظ اورمولوی کوئی بھی دسترخوان پر بیٹھ گیا تو غصے میں اس کو اٹھا دیا، ایسے پاگلوں کو بے شمار جوتے لگانے کو دل چاہتا ہے، ان میں انسانیت کیا شرافت بھی نہیں ہے، اس شخص کا قلب گناہوں کے تسلسل سے مسخ ہوچکا ہے، ورنہ رزقِ خداوندی پر چاہے دشمن بھی آجائے تو اس کو مت اٹھاؤ، کھالینے دو۔ ایک کافر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دسترخوان پر بیٹھا،آپ نے فرمایا کہ تمہارا مسلمان ہونے کو ------------------------------