آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مٹی کا رنگ بھی پیلا ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مٹی ترجمانِ سونا ہوتی ہے کہ یہاں سونا ہے۔ تو سونا تو مٹی کا رنگ بدل دے اور اﷲ کا نور اﷲ والوں کے چہرے کا رنگ نہ بدلے گا؟ کیا زر خالقِ زر سے بڑھ جائے گا؟ بولو کتنا اہم مضمون ہے وَلَوْ کَانَ قَلِیْلًامضمون تھا تو قلیل، لیکن اگر غیر اﷲ سے قلب پاک ہوجائے تو سارا سلوک طے ہوگیا۔سالک کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کا ایک خاص حربہ میں نے پورا تصوف پیش کردیا ہے۔ بہت سے صوفی غیر اﷲ ہی سے ہلاک ہوئے ہیں اور نسبتِ اولیائے صدیقین کی خط انتہا تک نہیں پہنچ سکے، جیسے شکاری چڑیا کے پر میں گوند لگا دیتا ہے تاکہ وہ اُڑ نہ سکے، تو شیطان بھی دیکھتا ہے کہ یہ بندہ بہت تیزی سے اﷲ والا بننے والا ہے کیوں کہ عشقِ شیخ میں کمال رکھتا ہے، ہر وقت صوفیوں کے ساتھ رہتا ہے تو شیطان اسے کسی اَمرد یا کسی لڑکی کے چکر میں ڈال دیتا ہے، تا کہ یہ گراؤنڈ فلور میں گھسا رہے اور عرشِ اعظم کی طرف پرواز نہ کرسکے اور ربِّ عرشِ اعظم کو نہ پاسکے، وہ چاہتا ہے کہ اس بندے کو پاخانے کا کیڑا بنا دو تاکہ وہ پاخانے کے مقامات میں گھسا ہائے ہائے کرتا رہے ؎ کبھی اس مال کو دیکھا کبھی اُس مال کو دیکھا اسمال یہاں گجراتیوں کا ٹائٹل ہے، دیکھیے میں نے اسمال کو کہاں استعمال کیا، وزن ملانا بھی شعر کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ اب دیکھو کہن کے معنیٰ پرانا ہیں، لیکن جب ہمارے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھے یہ شعر پڑھایا کہ ؎ خود قوی تر می شود خمر کہن پرانی شراب کا نشہ تیز ہوتا ہے، لہٰذا جب پیر بڈھا ہوجائے تو یہ مت سمجھو کہ اب کام کا نہیں رہا، اب اس کا نشہ اور تیز ہوگیا۔ اب دیکھو کہ اگلا مصرع کیا ہے ؎ خاصہ آں خمرے کہ باشد من لدن خاص وہ شراب جو اﷲ سے عطا ہو، آسمانی ہو، مخرج من الارض نہ ہو، منزل من السماء ہو۔ تو حضرت نے فرمایا کہ چوں کہ اگلے مصرع میں لدن آرہا ہے تو یہاں کہن پڑھنا پڑے گا۔ ایک دنیاوی شاعر قمر تخلص رکھتا تھا، اس کا ایک شعر ہے ؎