آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
۲۱؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق۱۳؍ اکتوبر ۱۹۹۸ ء،بروز منگل، بعد مغرب، ملاوی جھیل کے کنارے آج حضرت والا عصر کے بعد مع احباب کے ملاوی جھیل تشریف لے گئے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے اور مندرجہ ذیل ارشادات فرمائے۔مرنے سے پہلے پہلے اللہ پر فدا ہو جائیے ارشاد فرمایا کہ اے اﷲ تعالیٰ! آپ کا احسان ومہربانی ہے کہ آپ نے ہمیں اپنے ایک جھیل کے کنارے اپنا نام لینے کی توفیق عطا فرمائی اور گھر سے بے گھر فرمایا، کوئی بزنس کے لیے بے گھر ہے، کوئی کسی کام کے لیے، کوئی کسی کام کے لیے اور کوئی اﷲ کے لیے گھر سے بے گھر ہے۔ جو اﷲ کی محبت سیکھنے کے لیے میرے ساتھ سفر کر رہا ہے وہ دنیا تو نہیں پائے گا مگر اﷲ مل جائے تو سب کچھ مل گیا ؎ جو تو میراتو سب میرا فلک میرا زمیں میری اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری جس کو اﷲ نہیں ملا اسے کچھ نہیں ملا، اور یہ حقیقت کب معلوم ہوگی؟ جب قبر میں جنازہ اترے گا تب معلوم ہوگا کہ تمہارا کیا ہے؟ اس لیے جلدی جلدی اﷲ پر فدا ہوجاؤ جان سے، مال سے، آبرو سے، اولاد سے، اور اولاد سے کیسےفدا ہو گے؟ اپنی اولاد کو بھی نیک بناؤ، نمازی بناؤ، اﷲ والا بناؤ۔ خود نہ بنا سکو تو جو بنانے والے ہیں ان کے پاس لے جاؤ، پیار و محبت سے ان کو گلاب جامن، سموسہ کھلاؤ اور کہو آؤ بیٹا چلو ہم ایک جگہ اﷲ کی محبت سیکھنے جارہے ہیں،اس کا اثر پڑتا ہے۔ اگر انسان کا ایمان صحیح ہو تو اس جھیل اور سمندر کے کنارے محسوس ہوگا کہ ہم ساری دنیا کی سلطنت لیے بیٹھے ہیں،یہ ستارے ہم کو دیکھ کر رشک کررہے ہوں گے کہ یہ اﷲ کے کیسے بندے ہیں جو اﷲ کا نام لے رہے ہیں۔شبِ صحرا میر صاحب کے افریقہ کے تین سو ساٹھ کلومیٹر جنگل کے سناٹے پر اشعار ہیں، ہم اس جنگل میں رات کے وقت موٹر سے گئے تھے، موٹر کی لائٹ بھی بجھا دی تھی، بالکل اندھیرا اور سناٹا تھا۔ اس پر میرصاحب کے اشعار ہیں جو میر صاحب سنائیں گے ۔حضرت والا کے حکم پر احقر نے یہ اشعار سنائے ؎