آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سانس اللہ پر فدا ہوتی ہے اور ایک سانس بھی مالک کو ناراض کرکے حرام لذت کشید کرکے وہ بے وفائی کا ثبوت پیش نہیں کرتا، اور اگر کبھی خطا ہوجاتی ہے تو ندامت کے آنسوؤں سے سجدہ گاہ کو تر کردیتا ہے اور جب تک رو رو کر اﷲ کو راضی نہیں کرلیتا اس کو چین نہیں آتا۔ ہر سانس اپنے مولیٰ کا وفادار رہنا اور ایک سانس بھی اﷲ کو ناراض نہ کرنا اس کا مقصدِ حیات ہوتا ہے۔ لیکن یاد رکھو! اس بات کو لومڑی نہیں سمجھ سکتی،روباہ خصلت آدمی اس مضمون کے اِدراک سے بھی قاصر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی راہ کے جو شیر ہوتے ہیں وہی اس مضمون کو سمجھ سکتے ہیں، ورنہ جس آدمی کو ہر وقت گناہوں کی خبیث عادت پڑی ہوئی ہے وہ کیا جانے کہ اﷲ کی عبادت میں کیا مزہ ہے؟ پائخانے کا کیڑا اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ چمن میں کیا لطف ہے۔ وہ تو یہی سمجھتا ہےکہ گو ہی میں رہنے میں مزہ ہے۔ اگر اس کیڑے کو الگ کردو تو وہ پھر گو کی طرف بھاگتا ہے اور خوگرِ خصلتِ بد ہوجاتا ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ان مضامین کو سمجھنے کی بھی صلاحیت مانگو جو اختر پیش کررہا ہے۔ اگر مقامِ صدیقیت حاصل نہیں ہے تو صدیقین کے جذبات اور مقامات کو سمجھنے کے لیے کم سے کم ذوقِ صدیقیت تو ہو تاکہ وہ یہ تو سمجھ سکے کہ جس کی زندگی کی ہر سانس خالقِ زندگی پر فدا اور اس کے ساتھ باوفا ہے و ہ کتنا خوش نصیب انسان ہے۔ جس کو یہ ذوقِ صدیقیت حاصل ہے وہ بھی ان شاء اﷲ ایک دن مقامِ صدیقیت پر فائز ہوجائے گا۔ اے اﷲ! اختر کو اور اس کے احباب کو ذوقِ صدیقیت بھی نصیب فرما اور منتہائے مقامِ صدیقین پر بدون استحقاق محض اپنے کرم سے پہنچادے، آمین۔عظمتِ الٰہیہ کے سامنے مخلوق کی کوئی حقیقت نہیں ارشاد فرمایا کہ جو مخلوق سے ڈر کر اﷲ کی نافرمانی کرتا ہے کہ اگر ہم داڑھی رکھ لیں گے، اگر ہم ٹخنوں سے اونچا پاجامہ کرلیں گے، اگر ہم نامحرموں سے شرعی پردہ کر لیں گے تو مخلوق کیا کہے گی؟ کیوں کہ ان کی اکثریت اور میجارٹی ہے اور ہمیں ان ہی میں رہنا ہے، اگر ہم ان کی بات نہ مانیں گے تو پھر کہاں رہیں گے؟ یہی دلیل ہے کہ مولیٰ اس کے دل میں ابھی نہیں آیا، ورنہ جو سورج کو دیکھ لیتا ہے ستارے اس کو نظر بھی نہیں آتے بلکہ بعض اکثریت بعض اقلیت سے ڈرتی ہے اور وہ اقلیت اکثریت میں آنے سے بغض رکھتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا ستارے کبھی کہتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہیں، اے سورج! تو ٹکڑے ٹکڑے ہوکر ہماری طرح ہوکر ہم سے الیکشن لڑلے۔ بالفرض اگر کہیں بھی تو سورج کہے گا کہ اے ستارو! تم مجھ سے الیکشن لڑوگے؟