آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سابقہ اُمتوں کے افراد۔ کیوں کہ جس قلب سے ان کو کیفیتِ احسانیہ منتقل ہوئی تھی وہ قلب تمام نبیوں کے قلوب کا سردار تھا، لہٰذا کوئی اُمتی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اب قلبِ نبوت سے کیفیتِ احسانیہ کا انتقال ناممکن ہے۔ اس لیے صحابہ کا اللہ کے راستہ میں ایک مُد جَو خرچ کرنا ہم لوگوں کے اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنے سے افضل ہے۔ اگر اسّی نوے کروڑ مسلمانوں کا عالمی اجتماع ہوجائے اور اس مجمع میں بالفرض اللہ تعالیٰ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک منٹ کے لیے بھیج دیں اور ہم نوّے کروڑ مسلمان ایک بار کہیں اللہ اور حضرت صدیق اکبر بھی ایک بار کہہ دیں اللہ! تو ان کا اللہ جس کیفیتِ احسان اور جس حضورِ قلب اور جس مقامِ قُرب سے نکلے گا وہ نوّے کروڑ مسلمانوں کی زبان سے نکلنے والے اللہ سے وزنی ہوگا۔ اس لیے ہمارے بزرگوں نے فرمایا کہ جب شیخ آجائے تو اپنی عبادت پر ناز نہ کرو، نفلیں نہ پڑھو، فرض، واجب اور سنت مؤ کدہ پر اِکتفا کرو اور اپنے شیخ کے پاس بیٹھو، تاکہ اس کے قلب کی کیفیتِ احسانیہ تمہارے قلب میں منتقل ہوجائے، تو پھر تمہاری دو رکعات ایک لاکھ رکعات سے افضل ہوجائیں گی۔ یہ ہے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ کا راز۔اورکُوْنُوْا امر ہے جو بنتا ہے مضارع سے اورمضارع میں تجدد استمراری کی شان ہے، جس سے ثابت ہوا کہ استمراراً شیخ کی صحبت پر حریص رہو، کسی بڑے سے بڑے مقام پر بھی پہنچ جاؤ خواہ لاکھوں مرید ہوجائیں لیکن شیخ سے مستغنی نہ رہو اور شیخ کی مجلس میں یہ مراقبہ کرو کہ شیخ کے قلب سے میرے قلب میں کیفیتِ احسانیہ ،حضور مع الحق، نسبتِ خاصّہ، ولایتِ خاصّہ اور نسبتِ صدیقیت منتقل ہورہی ہے۔ اور شیخ کے ساتھ جتنا زیادہ حسنِ ظن ہوگا اتنا ہی زیادہ اللہ کا فضل ہوگا۔ یہ مقولہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے اور اختر یہی دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھ کو اور میری اولاد کو، میرے احباب کو اور ان کی اولاد و متعلقین کو نسبت اولیائے صدیقین کی خطِ انتہا تک پہنچا دے۔ یہ نسبت اگر حاصل ہوگئی، جس کے قلب میں اللہ تعالیٰ اپنی تجلیاتِ خاصّہ سے متجلی ہوجائے تو اس کی مٹی بھی بےمثل ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ حاملِ بے مثل ذات ہوتا ہے ۔ مان لو ایک شیشی میں عود کا ایسا عطر ہو کہ دنیا میں اس جیسا عطر کہیں نہ ہو تو اس شیشی کی قیمت بھی بڑھ جائے گی یا نہیں؟پس جن کے قلب میں اللہ اپنی تجلیاتِ خاصّہ سےمتجلّی ہو، تو جس درجہ قوی تجلی ہوگی اتنی ہی اس قلب کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ حصولِ ولایتِ صدیقیت اور حصولِ نسبتِ خاصّہ کا ایک اہم اصول بیان ہوگیایعنی صحبتِ شیخ کے