آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ؎ تم اﷲ سے ڈرو جتنی تمہاری استطاعت ہے اور استطاعت کا استعمال کرنے ہی میں ہم غفلت برتتے ہیں جبکہ اﷲ والے ہمیشہ غمگین رہتے ہیں، روتے ہیں کہ معلوم نہیں ہم نے استطاعت کا حق ادا کیا یا نہیں؟ یعنی جتنی ہماری قدرت ہے اتنا ہم نے استطاعت کا حق ادا کیایا نہیں؟ جتنی ہماری نظر بچانے کی قدرت ہے اس قدرت کو ہم نے استعمال کیا یا نہیں یا ہم اس میں چور اور خائن ہیں، اسی فکر و غم میں وہ مرتے رہتے ہیں، ساری زندگی گھلتے رہتے ہیں،اشکبار آنکھوں سے معافی مانگتے رہتے ہیں۔ حکیم الامت نے ایک عجیب بات فرمائی کہ جو شخص کہے کہ مجھے طاقت نہیں رہتی، حسینوں کو دیکھ کے میں پاگل ہوجاتا ہوں، پرانی عادت راسخ ہوچکی ہے، تو اس کا جواب حکیم الامت نے دیا کہ قدرت ہمیشہ ضدین سے متعلق ہوتی ہے یعنی جس کام کو کرنے کی قدرت ہوتی ہے آدمی اس کو نہ کرنے پر بھی قادر ہوتا ہے۔ جو آدمی ہاتھ اٹھا سکتا ہے وہ اسے نیچے بھی گرا سکتا ہے ، جو حسینوں پر نظر ڈال سکتا ہے وہ ہٹا بھی سکتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہو۔ اس کی ایک مثال میں دیتا ہوں کہ اگر پولیس کا سپرانٹنڈنٹ کہے کہ یہ میرا لڑکا یا میری لڑکی ہے، جو نظر باز یہ کہتا ہے کہ حسینوں کو دیکھ کر میں پاگل ہوجا تاہوں وہ آج میری لڑکی کو دیکھ کر دکھائے اور ایک ہاتھ میں اس کے پستول بھی ہو تو وہاں اس کا نفس بڑا عقل مند بن جاتا ہے۔ معلوم ہوا نظر بچانے کی طاقت ہے جبھی تو پستول دیکھ کر پاگل نہیں ہوا۔ آہ! مخلوق کے خوف سے نظر نیچی کرنے والو! اس بڑی طاقت کا بھی دھیان پیدا کرلو جسے ہماری نظر کی بینائی چھیننے یا ہمارے گردے بے کار کرنے کے لیے کسی پستول کی بھی ضرورت نہیں۔ تو میں یہ بتا رہا تھا کہ صحبتِ شیخ میں اوّل تو یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗضروری ہے کہ مخلص ہو اور گناہوں سے بچنے کا مجاہدہ کرے، اور دوسرے یہ کہ شیخ کی صحبت میں اس کے آداب کا خاص خیال رکھے۔ شیخ کے سامنے مٹ کر رہنا چاہیے، اس کی روک ٹوک اور ڈانٹ کو اپنی اصلاح کا ذریعہ اور شیخ کا پیار سمجھنا چاہیے، یہ نہیں کہ شیخ نے کسی بات پر ٹوک دیا یا پکڑ ہوگئی کہ یہ کام کیوں کیا تو اگر مگر اور بحث بازی شروع کردی۔ اس میں ایذائے شیخ ہے۔ ------------------------------