آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
عَزْمًانکرہ ہے اور لَمْنفی ہے تو عَزْمًانکرہ تحت النفی ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہےاِنَّ النَّکِرَۃَ اِذَا وَقَعَتْ تَحْتَ النَّفْیِ تُفِیْدُ الْعُمُوْمَیعنی ہم نے آدم علیہ السلام کے دل میں ارادۂ نافرمانی کا ایک اعشاریہ، ایک ذرّہ بھی نہیں دیکھا، اس سے بڑی کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ لیکن پھر بھی حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی عذر نہیں پیش کیا، یہ نہیں فرمایا کہ یا اللہ! میں بھول گیا تھا، جب شیطان نے آپ کا نام لیا اور قسم اٹھائی تو آپ کے نام سے میں اتنامست ہوگیا تھا کہ آپ کا حکم بھول گیا،جبکہ حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ بھول گئے تھے۔ شیطان ظالم نے قسم کھائی تھی کہ اے آدم! اﷲ کی قسم! اگر تم نے اس ممنوعہ درخت کو کھالیا تو تم ہمیشہ جنت میں رہو گے۔ حکیم الامت فرماتے تھے کہ اﷲکے نام سے آپ پر نشہ طاری ہوگیا تھا ؎ نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا ذکر میں تاثیرِ دورِ جام ہے غلبۂ لذتِ اسمِ مبارک سے آپ کو نسیان ہوگیا تھا، لیکن رَبَّنَا ظَلَمْنَا کا جو مزہ آپ نے لیا اس کے مقابلے میں دنیا میں کوئی مزہ نہیں کہ اے ہمارے پالنے والے! ہم سے قصور ہوگیا۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ؎ کا مزہ عاشقوں سے پوچھو، رَبَّنَاکہتے ہی مزہ شروع ہوگیا کہ اے ہمارے پالنے والے! پھر ظَلَمْنَا کا مزہ الگ کہ ہم نے ظلم کیا اَنْفُسَنَا نے مزہ اور بڑھا دیا کہ آپ کا کچھ نقصان نہیں ہے ہم نے اپنا ہی نقصان کیا ہے، وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ واقعی ہمارا بڑا نقصان ہوجائے گا۔ تو ہر ہر لفظ کا مزہ الگ ہے۔ بعضے ظالموں کو یہی سکھاتا ہوں کہ اگر مگر مت لگایا کرو، اﷲ کا راستہ عقل کا راستہ نہیں ہے، یہ فنائیت کا راستہ ہے، اپنے بڑوں کے سامنے بالکل مٹ جاؤ، یہ نہ سوچو کہ شیخ میری غلط گرفت کررہا ہے، شیخ خطا پر ہے اور میں حق پر ہوں۔ بتاؤ! کسی کو میری اس تقریر پر کوئی اِشکال ہے؟ بولو بھئی! کیا قرآنِ پاک کا استدلال آپ کے لیے باعثِ تسلی نہیں ہے کہ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًاکے علمِ الٰہی کے باوجود حضرت آدم علیہ السلام رَبَّنَا ظَلَمْنَا کہہ رہے ہیں۔اگر ناقص عشق نہیں ہے، محبتِ کاملہ ہے تو اسی میں مزہ آتا ہے کہ مجھ سے قصور ------------------------------