آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سات پشت تک بلکہ دس پشت تک وہ کریم مالک رحمت نازل کرتا ہے۔ پھر ہمیں اولاد کی کیا فکر؟ بس ہم ان کے بن جائیں ہماری دس پشت تک وہ رحمت نازل فرمائیں گے۔ چوں کہ یہ کام ظاہراً بھی اچھا تھا، اس لیے حضرت خضر علیہ السلام نے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنۡ یَّبۡلُغَاۤ اَشُدَّہُمَا وَیَسۡتَخۡرِجَا کَنۡزَہُمَا٭ۖرَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ آپ کے رب نے ارادہ کیا۔وَ مَا فَعَلۡتُہٗ عَنۡ اَمۡرِیۡ؎ تو دیکھیے قرآن ِپاک نے یہ ادب سکھایا ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ حق میں کیا ڈر ، بے دھڑک کہہ دو ، استاد ہو، ماں باپ ہو ،لیکن قرآن ِ پاک نے سکھایا کہ حق پیش کرو مگر ادب کے ساتھ پیش کرو ۔ حق کا پوڈر ادب کے کیپسول میں پیش کرو۔ قرآنِ پاک سے بڑھ کر کون ہمیں ادب کی تعلیم دے سکتا ہے؟ آگےحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ اے اللہ! ہم پناہ چاہتے ہیں کہ عافیت مصیبت سے تبدیل ہوجائے۔ زوالِ نعمت اور تحوّلِ عافیت میں ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فرق لکھا ہے کہ نعمت کا زوال یہ ہے کہ وہ نعمت جاتی رہے ،مثلاً مال جاتا رہا ،تو یہ نعمت کا زوال ہے ،لیکن اگر مال بھی جاتا رہا اور کوئی دوسری بلا و مصیبت بھی لگ گئی تو یہ تحوّلِ عافیت ہے کہ عافیت کسی مصیبت میں منتقل ہوگئی،مثلاً :ایک ہزار رین لیے ہوئے بس میں جارہے ہیں اور کسی جیب کترے نے جیب کاٹ لی تو یہ زوالِ نعمت ہے اور تحوّلِ عافیت یہ ہے کہ ایک ہزار بھی چھین لیا اور پٹائی بھی کی،جیسے بنگلہ دیش میں سنا کہ وہاں جہاز پر رات کو ڈاکو ڈاکہ مارتے ہیں، مال بھی چھین لیتے ہیں اور پٹائی بھی کرتے ہیں،تو میں نے ایک عالم سے پوچھا کہ جب مال چھین لیتے ہیں تو مارتے کیوں ہیں؟ تو اس عالم نے کہا کہ بغیر پٹائی کے کوئی پیسہ نہیں دیتا، جب مار پڑتی ہے تو بے چارے جلدی جلدی نکال کرظالموں کو دے دیتے ہیں۔ یہ تحوّلِ عافیت ہے کہ نعمت بھی زائل ہوگئی اور تکلیف میں بھی مبتلا ہوگئے۔ اس کے بعد ہے فُجَاءَۃِ نِقْمَتِکَ اچانک مصیبت کے پکڑ لینے سے بھی پناہ مانگی جارہی ہے کہ رات کو آرام سے سوئے اور صبح کو معلوم ہوا کہ گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا، اور جَمِیْعِ سَخَطِکَاور اے اللہ!آپ کی ہر قسم کی ناراضگی سے ہم پناہ چاہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بہت سی اقسام و انواع ہیں،لہٰذا ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُمت کو سکھا رہے ہیں۔ بڑی ناراضگی ہو ، چھوٹی ناراضگی ہو ، بڑا گناہ ہو، چھوٹا گناہ ہو ،سب سے پناہ مانگی جارہی ہے۔ اگراللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مختلف انواع نہ ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جَمِیْعِ سَخَطِکَ نہ فرماتے۔ ------------------------------