آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہے؟ جب محبوب جان سے زیادہ پیارا ہوجاتا ہے تو عاشق جان دے دیتا ہے، دنیاوی معشوقوں کے لیے بھی ان کے عاشقین کہتے ہیں کہ ؎ نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے جب مرنے گلنے والے دنیاوی معشوقوں پر جان دے کر جان کو ضایع کرنے پر لوگ تیار ہیں پھر اللہ پر جان دینے سے کیوں گھبراتے ہو جس نے جان عطا فرمائی ہے؟یہ ہماری قسمت ہے کہ وہ ہمیں قبول کرلیں، اللہ کے جانباز کا تو یہ حال ہوتا ہے ؎ جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے لیکن اللہ پر مرنے کے لیے، اللہ پر فدا ہونے کے لیے نظر چاہیے، پیغمبروں کی نظر چاہیے، اللہ کے دوستوں کی نظر چاہیے، اللہ کے عاشقوں کی نظر چاہیے، اللہ کے دیوانوں کی نظر چاہیے۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن بغداد کے بادشاہ نے لیلیٰ کو بلایا اور لیلیٰ سے کہا ؎ گفت لیلیٰ را خلیفہ کاں توئی مثنوی مولانا روم پیش کر رہا ہوں ۔بغداد کے بادشاہ نے لیلیٰ کو بلایا اور کیا سوال کیا ؎ گفت لیلیٰ را خلیفہ کاں توئی خلیفہ امیر المومنین کہہ رہا ہے کہ اے لیلیٰ! کیا تو ہی وہ ہے ؟ ؎ کز تو مجنوں شد پریشان و غوی کہ تیری محبت میں مجنوں پاگل ہوگیا ؎ از دِگر خوباں تو افزوں نیستی دوسری حسین لڑکیوں سے تو تُو زیادہ خوبصورت نہیں ہے، تو لیلیٰ نے بادشاہ کو ڈانٹا ؎ گفت خامش چوں تو مجنوں نیستی اے بغداد کے بادشاہ! خاموش رہ اس لیے کہ تو مجنوں نہیں ہے ؎