آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
خود اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے، بدبختی کے فیصلے کو کاٹ کر مفید فیصلہ کردے، کون ہے اﷲ سے پوچھنے والا؟ دیکھو یہ کتنا بڑا علم ہے! یہ معمولی علم نہیں ہے، اس لیے جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اے خدا!آپ کی قضا آپ پر حاکم نہیں ہے، آپ کی محکوم ہے، آپ جب چاہیں اپنے فیصلے کو بدل سکتے ہیں لیکن مخلوق نہیں بدل سکتی، پوری مخلوق مل کر کسی کی قسمت کو بدل دے یہ ناممکن ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے جس کو جہنمی لکھا ہوا ہے اس کو کاٹ کر جنتی لکھ سکتا ہے، یہاں یہی مطلب ہے کہ اے اﷲ! اگر میرا کوئی عمل آپ کے علم میں ایسا ہے کہ میں کسی گناہ کی وجہ سے نہ بخشا جاؤں اور آپ نے مجھ کو دوزخی لکھ دیا ہے تو اے اﷲ! آپ اپنا فیصلہ بدلنے پر قادر ہیں، میرے سوء قضا کے فیصلے کو اپنی قدرت سے حسنِ قضا کے فیصلے سے بدل دیجیے، سلامتیٔ ایمان اورسلامتیٔ اعضا کے ساتھ حیات نصیب فرمائیے او ر سلامتیٔ ایمان اور سلامتیٔ اعضا کے ساتھ دنیا سے اٹھا لیجیے۔ اور جان کو آسانی سے نکالیے اور اپنے جلوؤں اور تجلیات کا مشاہدہ کرا کے ہم سب کو شاداں اور فرحاں اور غزل خواں بلائیے، آمین۔ دیکھو! کیسی پیاری دعا ہے؟ شاداں و فرحاں و غزل خواں یعنی شعر گنگناتے ہوئے مست چلے جارہے ہیں ایسی موت آئے۔ کیا کہیں کہ یہ مضامین معمولی نعمت نہیں ہے، اختر پر اﷲ کی عظیم نعمتیں ہیں۔ تو سوء القضاء کی شرح ہوگئی۔ یہ حکیم الامت کا مضمون ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ یہاں قضاء معنیٰ میں مقضی کے ہے یعنی ہمارے حق میں آپ کے جو فیصلے ہیں اگر وہ مضر ہیں، نقصان دہ ہیں تو ان کو تبدیل کر دیجیے، ورنہ آپ کا ہر فیصلہ حکیمانہ ہے۔ دیکھو! قرآن شریف میں ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا ؎ ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن بنایا تو اس سے کافر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں تو اﷲ میاں نے نبی کا دشمن بنایا ہے، لہٰذاہمارا کیا قصور ہے؟ ہم تو نبی کو حکمِ الٰہی سے ستارہے ہیں لہٰذا ہم بھی جنت میں جائیں گے، تو اس کا جواب حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ دیا ہے کہ یہ جعل تشریعی نہیں ہے تکوینی ہے یعنی اگر تم ایمان نہ لائے تو جہنم میںڈالے جاؤ گے۔ ------------------------------