آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ایک لاکھ مچھلیاں سونے کی سوئیاں منہ میں لے کر آگئیں، آپ نے ڈانٹ کر فرمایا کہ میری لوہے والی سوئی لاؤ کیوں کہ سونے کی سوئی کا استعمال اس امت کے لیے جائز نہیں ہے، تو ایک مچھلی نے غوطہ مارا اور ان کی لوہے والی سوئی لادی۔ بس وزیر رونے لگا کہ آہ! مچھلیاں تو اس اﷲ والے کو پہچانتی ہیں اور ہم جیسے گدھے اور بے وقوف،انٹرنیشنل ڈونکی اینڈ منکی انسان ہوکر اس ولی اﷲ کی قیمت کو نہیں پہچانتے، تو وزیر نے پیر پکڑ کر رونا شروع کیا کہ میری گستاخی معاف کر دیجیے، میں نے آپ کو معمولی سمجھا تھا۔ اس پر میرا ایک شعر ہے ؎ بعد مدت کے ہوئی اہلِ محبت کی شناخت خاک سمجھا تھا جسے لعلِ بدخشاں نکلا جس کو ہم نے مٹی سمجھا تھااس کے اندرلعلِ بدخشاں چھپا ہوا ہے ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں کا کام ہے،سانپ مچھلی کا مقابلہ نہیں کرسکتا، وہ ہر وقت پانی میں نہیں رہ سکتا، تھوڑی دیر کے بعد بل میں گھس جائے گا، تماشا دِکھانے کے لیے تھوڑی دیر مچھلی بن کر دِکھائے گا کہ شاید مجھے کچھ لوگ نذرانہ پیسہ دیں لیکن چوں کہ وہ پانی کی مخلوق نہیں ہے، لہٰذا تھوڑی دیر کے بعد وہ بل میں گھس جائے گا۔ ہر وقت پانی میں رہنا مچھلیوں ہی کاکام ہے اور ہر وقت اﷲ کی یاد میں رہنا اور گناہ سے بچنا یہ اﷲ والوں ہی کا حصہ ہے۔جعلی پیر کچھ دیر اللہ والے بنے رہتے ہیں، لیکن کچھ دیر بعد اپنی خلوتوں میں شیطان بن جاتے ہیں۔ تو وہ وزیر حضرت سلطان ابراہیم ابنِ ادہم کے پاس چھ مہینے رہا، اس نے کہا کہ بس ہمیں بھی اﷲ والا بنا دو، نہیں تو ہم واپس نہیں جائیں گے۔ مولانا رومی نے فرمایا کہ چھ مہینے کے بعد وہ بھی ولی اﷲ بن گیا اور صاحبِ نسبت ہوکر واپس ہوا۔ بس میری اس گفتگو کی دلیل ایک ہی ہے کہ بڑے سے بڑا شخص چاہے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو بتاؤ، جب اس کا جنازہ جائے گا تو وہ کیا لے کر جائے گا؟ ارے اﷲ والے بن جاؤ، تب تمہیں قدر معلوم ہوگی۔ کراچی میں کلفٹن میں ایک صاحب کے چھ بنگلے تھے، جب اس کو کہا جاتا کہ نماز پڑھ، روزہ رکھ، تو کہتا تھا کہ ہمیں نماز روزے کی ضرورت نہیں ہے، ہماری تو سات پشت کے لیے کھانے کو موجود ہے، بینک میں چھ بنگلوں کا کرایہ آتا ہے، ہماری اولاد بیٹھ کر کھائے گی، اسے کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اصل میں اﷲ پناہ میں رکھے! جب عقل پر عذاب آجاتا ہے، جب عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں پھر اﷲ کی بات اچھی نہیں لگتی، اس خبیث پر