آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دریا میں پانی آئے اور دریا کو پتا نہ چلے کہ میرے دریا میں پانی آگیا اور میرا بادشاہ میری گلی میں آگیا، میرے دل میں مولیٰ آگیا،تو دل کوپتا نہ چلےگا؟ جب دل میں مولیٰ آتا ہے تو دل کو خود پتا چل جاتا ہے ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی جب دل میں مولیٰ آتا ہے تو آسمان وزمین ایک ہوجاتے ہیں، سورج اور چاند کی روشنی میں لوڈشیڈنگ محسوس ہونے لگتی ہے، ساری دنیا کی لیلائیں نگاہوں سے گرجاتی ہیں، آدمی سارے دنیا کے سموسے، پاپڑ اور بریانیاں مولیٰ کے سامنے بھول جاتا ہے ؎ کہاں خرد ہے کہاں ہے نظامِ کار اس کا یہ پوچھتی ہے تری نرگسِ خمار آلود ترے جلوؤں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی زبانِ بے نگہ رکھ دی نگاہِ بے زباں رکھ دی جب جنت میں اﷲ کا دیدار کریں گے تب جنت کی کوئی نعمت یاد نہیں آئے گی۔ جنت میں ہر ہفتے اﷲ کا دیدار ہوگا تو جتنے جنتی ہیں جب وہ مولیٰ کو دیکھیں گے تو اس وقت ان کو جنت کی کوئی نعمت یادنہیں آئے گی کیوں کہ اﷲخالقِ نعمت ہے، نعمت اور خالقِ نعمت میں فرق ہوتا ہے۔ تو حکیم الامت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! جب اﷲ دل میں آئے گا تو دل خود محسوس کرلے گا، اس دل کی مستی سے تمہارے جسم کی رفتار بدل جائے گی، گفتار بدل جائے گی، کردار بدل جائے گا۔ دیکھو! ابا کا ایک ہی بیٹا ہو تو ابا کہتا ہے کہ میرا بیٹا ایسے چلتا ہے اور ایسی بات کرتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ بھی غایت محبت کی وجہ سے قرآن شریف میں سارے عالم کو اپنے عاشقوں کی چال تک بتارہے ہیں: وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا وَّ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ؎ کہ میرے عاشق زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور گفتگو کا انداز یہ ہوتا ہے کہ دفعِ شر کی بات کرتے ہیں۔ تو ------------------------------