آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اسی طرح بہت سے جعلی پیراللہ والوں کی وضع اور لباس میں ہیں، ان کو دیکھ کر بدگمانی نہ کرو کہ سب ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ان ہی دنیادار اور ذلیل و خوار جعلی پیروں میں صاحبِ نسبت اور متبعِ سنت اولیاء اللہ بھی چھپے ہوئے ہیں جو پوری دنیائے انسانیت کے لیے باعثِ عزت اور قابلِ فخر ہیں۔ انہیں تلاش کروگے تو پاجاؤگے۔ اور اس کی علامت کیا ہے کہ کون پیر مخلص اور سچا ہے اور کون نہیں ہے؟ تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ مچھلی کی علامت یہ ہے کہ ہر وقت پانی میں رہتی ہے، مچھلی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی وقت پانی میں رہے اور کسی وقت پانی کو چھوڑ کر بھاگ جائے۔ اسی طرح اللہ والے کی علامت یہ ہے کہ وہ ہر وقت خدا کو یاد رکھتا ہے، ایک سانس بھی اللہ کو نہیں بھولتا یعنی ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو، اللہ کے بغیر اس کو اپنی موت نظر آتی ہے جیسے مچھلی کو پانی کے بغیر موت نظر آتی ہے کہ اگر وہ ایک لمحہ کے لیے پانی سے الگ ہوجائے تو مرنے لگتی ہے ؎ دائم اندر آب کارِ ماہی است مار را با او کجا ہمراہی است ہر وقت پانی میں رہنا مچھلی کا کام ہے، سانپ کو مچھلی کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت پانی میں رہے، کیوں کہ وہ پانی کا جانور نہیں ہے، اس لیے کچھ دیر تو مچھلی پن دکھائے گا اور پھر نظر بچاکر پانی سے بھاگ جائے گا اورخشکی میں جسم کو سُکھائے گا۔ ایسے ہی جعلی پیر کچھ دیر اللہ والوں کی نقل کرلے گا، کچھ ھُو حق کرلے گا کچھ آنسو بہالے گا لیکن موقع ملتے ہی یہ اللہ سے بھاگ جائے گا اور گناہ میں مبتلا ہوجائے گا کیوں کہ یہ اصلی نہیں ہے، یہ سانپ ہے مچھلی نہیں ہے اس لیے یہ ہر وقت اللہ کے دریائے قرب میں نہیں رہ سکتا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ نامحرم عورتوں سے پاؤں دبوا رہا ہے، رشوت اور سود کی حرام بریانی اُڑا رہا ہے، مختلف چکروں اور مکاریوں سے لوگوں سے پیسے بٹور رہا ہے۔ نادان اور بے وقوف قسم کے لوگ ایسوں کے چکر میں آجاتے ہیں، ورنہ جو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف چلے وہ کہیں ولی اﷲ ہوسکتا ہے؟ ہمارے ملک میں ایسی جعلی خانقاہیں ہیں جن میں سالانہ عرس ہوتا ہے، قوالیاں ہوتی ہیں، تالیاں بجتی ہیں، گانا باجا ہوتا ہے، طوائفوں کا ناچ ہوتا ہے۔ پیر صاحب سال بھر نماز تک نہیں پڑھتے، داڑھی منڈاتے ہیں، لیکن عرس کے زمانہ میں مریدوں سے پیسہ اینٹھنے کے لیے تھوڑی تھوڑی داڑھی رکھ لیتے ہیں، نماز پڑھنے لگتے ہیں، جبّہ اور عبا، قَبا، ٹوپی اور لمبا کُرتا، لیکن جیسے ہی عرس کا زمانہ ختم ہوا، خوب قوّالی ہوگئی، مریدوں سے سال بھر کا خرچہ لے لیا تو اس کے بعد نماز بھی نہیں پڑھتے، کیوں کہ یہ نماز روزہ محض روپیہ