آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کے ساتھ اٹھایا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ شہادتِ ظاہری بے شک بہت بڑی نعمت ہے، خصوصاً جب شہادت فرض ہو تو گردن کٹا دینا دلیل ہے کہ اﷲ اس کو جان سے زیادہ پیارا ہے اور شہیدبھی اﷲ کا پیارا ہے لیکن شہید کی گردن ایک بار کٹتی ہے مگر ہر وقت نفس کو مارنا، ہر سانس میں شہید ہونا کمالِ عشق ہے جس کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے ؎ کمالِ عشق تو مر مر کے جینا ہے نہ مرجانا ابھی اس راز سے واقف نہیں ہیں ہائے پروانے لہٰذا دونوں شہادتیں ضروری ہیں اور دونوں کو حاصل کرنا چاہیے، لیکن صدّیقین کا درجہ مقدّم ہے شہداء پر جیسا کہ قرآن پاک کے اسلوبِ بیان سے ظاہر ہے فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ؎ تقدیم و تاخیر ان کے درجات کو متعین کر رہی ہے۔ نبی صدیق سے افضل ہے اور صدیق شہید سے افضل ہے اور شہید صالحین سے افضل ہے۔ اور شہداء پر صدیقین کی افضلیت کی دو وجہ اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائیں: ۱) صدیق مقاصدِ بعثتِ نبوت کی تکمیل کرتا ہے، پیغمبرجس کام کے لیے دنیا میں بھیجا جاتا ہے وہ اس کارِ نبوت کی تکمیل کرتا ہے، اسی لیے جنگِ اُحد میں حضورصلی اﷲ علیہ وسلم کا خونِ مبارک بہتا ہوا دیکھ کر جب حضرت صدیق اکبر شہید ہونے کے لیے کافروں پر جھپٹے، تو حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جھپٹ کر ان کو پکڑ لیا اورفرمایا:شِمْ سَیْفَکَ لَاتُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ اے صدیق !اپنی تلوار کو میان میں رکھ لے،اپنی جدائی سے مجھے غمگین مت کر۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانِ صدیق جانِ پیغمبر کو محبوب ہوتی ہے۔ اگر حیاتِ صدیق شہادت سے افضل نہ ہوتی تو آپ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲعنہٗ کو مقامِ شہادت پر فائز ہونے سے نہ روکتے، کیوں کہ نبی کی شان حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ؎ہے یعنی حَرِیْصٌ عَلٰی اِیْمَانِکُمْ وَصَلَاحِ شَانِکُمْ؎نبی امت کے ایمان پر اور ان کی صلاحِ شان پر حریص ہوتا ہے۔ پس اگر شہادت کا مقام صدیقیت سے اعلیٰ ہوتا تو نبوت کی شان کے خلاف تھاکہ کسی اُمتی کو اعلیٰ مقام سے محروم کرکے ادنیٰ پر ------------------------------