آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس پیر کے مرید علماء زیادہ ہوں تو سمجھ لو کہ یہ پیر سچا ہے، کیوں کہ علم کی روشنی رکھنے والے اس کے معتقد ہیں۔ بہت سے نابینا اگر بیٹھے ہوں اور کسی کے حسن کی تعریف کررہے ہوں تو آپ کو یقین نہیں کرنا چاہیے کہ جس کی خود آنکھیں نہیں ہیں وہ کہہ رہا ہے کہ فلاں کی آنکھیں بہت پیاری ہیں، کَعَیْنِ الظَّبْیِ مثل ہرن کی آنکھ کے، تو اس کے قول کو آپ جلدی نہیں مانیں گے۔ علماء کو اﷲ نے آنکھ دی ہے، علم کی روشنی دی ہے، یہ جس کو پیر منتخب کریں تو سمجھ لو کہ اﷲتعالیٰ کا فضل ہے۔ الحمدﷲ! پورے جنوبی افریقہ میں ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی خصوصاً جہاں سفر ہوا ہے، بڑے بڑے علماء کی خدمت اﷲتعالیٰ نے اپنے کرم سے نصیب فرمائی ہے، یہ اﷲتعالیٰ کا شکر ہے۔ میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب یہ بڑے بڑے جامعہ اور دارالعلوم والے سمجھتے تھے کہ حکیم اختر دوا بیچتا ہوگا۔ آج اﷲتعالیٰ کا شکر ہے کہ بڑے بڑے علماء کہتے ہیں کہ میں دوائے دردِ دل بیچتا ہوں۔ مفتی حسین زمانۂ طالب علمی سے میرے پاس آتا تھا۔ مولانا ہارون شیخ الحدیث جو اب بخاری شریف پڑھارہے ہیں، ان سے کہا جاتا کہ کہاں جاتے ہو، اس کے پاس کیا ہے؟ اب وہ کہتے ہیں کہ کاش زمانۂ طالب علمی سے میں تمہارے پاس آتا تو آج میرا کیا حال ہوتا۔ اب روتے ہیں، اشکبار ہوتے ہیں۔ لوگوں نے سمجھا تھا کہ یہ کوئی حکیم ہی ہے، گولیاں دیتا ہوگا۔ میں کوئی گولی نہیں بناتا صرف بولی سناتا ہوں، میری بولی ہی میں اﷲ نے گولی کا اثر رکھ دیا ہے، لیکن الحمدﷲ میں نے اپنے بزرگوں سے جو دردِ دل سیکھا وہی دوائے دردِ دل اب دے رہا ہوں۔ (احقر جامع عرض کرتا ہے کہ حضرت مرشدی مدظلہم العالی فِدَاہُ رُوْحِیْکے درد بھرے اشعار اکثر حضرت اقدس کی تاریخِ حیات اپنے اندر رکھتے ہیں جس کا لوگوں کو علم نہیں، چوں کہ وہ گفتہ آید در حدیث دیگراں ہے حالاں کہ دراصل وہ حضرتِ اقدس کے مقامِ عالی کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرتِ والا دام ظلہم کے مندرجہ ذیل اشعار اپنے دعویٰ کی دلیل میں پیش کرتا ہوں ؎ بعد مدت کے ہوئی اہلِ محبت کی شناخت خاک سمجھا تھا جسے لعل بدخشاں نکلا ہائے اُس قطرۂ دریائے محبت کا اثر جس کو سمجھا تھاکہ قطرہ ہے وہ طوفاں نکلا