آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہمت سے کام لو، اﷲ کا راستہ بہت آسان ہے اور گناہ کرنا مشکل ہے کیوں کہ منکر کام ہے، منکر اجنبی ہے اور اجنبی سے ملاقات میں دل گھبراتا ہے، ہر بُرائی منکر ہے اور ہر نیکی معروف ہے، معروف کے معنیٰ ہیں جانی پہچانی چیز، آدمی جانی پہچانی معروف چیز سے مانوس ہوتا ہے، اس لیے گناہ مشکل ہے بلکہ اس میں کئی مشکلات ہیں، اوّل تو خود مشکل میں پڑتا ہے، اس کی یاد ستاتی ہے، ہر وقت غمگین رہتا ہے، کھانا بھی اچھا نہیں لگتا، پینے کا مزہ بھی نہیں ہوتا، ہروقت کھوپڑی میں اس کی یاد کا کھونٹا گڑا رہتا ہے ؎ ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے مولانا رومی نے مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک عاشق نے معشوق کو چھیڑا تو معشوق نے اس کو سات گالیاں دیں، کمینہ، ریچھ خصلت، خبیث الطبع، ملعون، منحوس، بے غیرت اور آخر میں مادر فروش کہا یعنی ماں بیچنے والا۔ مولانا رومی کا احسان ہے کہ انہوں نے سات گالیاں بھی مثنوی میں نقل کر دیں۔ بتاؤ! کیا پایا لیلاؤں سے؟ اور اگر مولیٰ پر عاشق ہوتے تو تمہاری جوتیاں اٹھائی جاتیں، لوگ تم کو دعائیں دیتے، حضرت کا لقب ملتا، لوگ دعا کے لیے کہتے کہ میرے پیارے شیخ میرے لیے دعا کرنا، صوفی صاحب مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا، دعا میں نہ بھولنا۔ اور لیلاؤں کے پاس کیا ملا؟ سات گالیاں سنیں اور اس میں کوئی بھی گالی شریفانہ نہیں ہے اورآخری گالی تو ایسی ہے کہ زمین پھٹ جائے اور انسان اس میں غرق ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ کی قبر کو اپنے نور سے منور کردے، یہ سات گالیاں لکھنے سے ان کا مقصدیہ تھا کہ لوگوں کو گراؤنڈ فلور کے خبیث مقامات سے حیا اور شرم آئے، لیکن ؎ نعم البدل کو دیکھ کے توبہ کرے ہے میر اس لیے مولیٰ کو حاصل کرو، لیلاؤں کی طرف خیال ہی نہ لے جاؤ، مولیٰ پر فدا ہو۔ جب مولیٰ دل میں آئے گا، خالقِ گل و گلستان جب دل میں آئے گا تو دل کو بھنگی پاڑے سے خود ہی مناسبت نہیں رہے گی، پیشاب پاخانے کے مقامات سے تمہیں خود ہی نفرت ہونے لگے گی۔ ا س لیے اﷲ والوں کے ساتھ رہو اور اﷲ کے ذکر میں ناغہ مت کرو اور دینی مجلسوں میں رہو تو ان شاء اﷲ ایک دن ذوق بدل جائے گا، لیکن دنیا اﷲ والے اس راستے کو کہتی ہے کہ اس پر چلنے سے زندگی غارت ہوجائے گی، بے کیف ہوجائے گی، بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ اﷲ والوں کے پاس کیا مزہ آئے گا؟ اس پر میرا شعر ہے ؎