آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نہیں آتا، لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ جب دل میں اﷲ آتا ہے تو دونوں جہاں کی لذت سے زیادہ مزہ آتا ہے ؎ وہ شاہِ دو جہاں جس دل میں آئے مزے دونوں جہاں سے بڑھ کے پائے لہٰذا اپنے قلب سے تمام غیر اﷲ کو نکال دیں ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوبؔ خدا کا گھر پئے عشقِ بتاں نہیں ہوتا جو اﷲ کے لیے اتنا غم اٹھائے گا تو کیا اﷲ ارحم الراحمین نہیں ہیں؟ وہ اس کے دل کا پیار نہیں لیں گے؟ جو بچہ اپنے ماں باپ کو خوش کرنے کے لیے غم اُٹھاتا ہے ماں باپ اس کاپیار لیتے ہیں یانہیں؟ اور نافرمان بچے کو جوتے مارتے ہیں۔ تو جو نافرمانی سے حرام لذت کشید کرتا ہے اس کی کھوپڑی پر جوتے پڑتے نظر تو نہیں آتے، مگر اس کے قلب پر اﷲسے بُعد اور لعنت کے جوتے پڑتے رہتے ہیں، وہ پاگل کتے کی طرح تڑپتا رہتا ہے، اس کو ایک پل چین نہیں ملتا۔ اسی لیے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ عشقِ مجازی عذابِ الٰہی ہے اور حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیاوی محبتیں چند دن کی ہوتی ہیں۔ میرا شعر ہے ؎ شکل بگڑی تو بھاگ نکلے دوست جن کو پہلے غزل سنائے ہیں یہ محبت پھر نفرت و عداوت میں کنورٹ(Convert)یعنی تبدیل ہوجاتی ہے، دیکھا آپ نے میرا بنوٹ! یہ محبت جو آنکھوں سے او رچہرے کی بناوٹ سے ہے چند دن کے بعد جب جغرافیہ بدل جائے گا تو یہ محبت نفرت وعداوت سے بدل جائے گی، روئے زمین پر ہمیں آج تک کوئی ایسا نہیں ملا جس کو حسنِ مجازی میں ہمیشہ وفا ملی ہو، جب چہرہ بدل گیا سب بھاگ گئے ؎ جب ملائم خاں خشب خاں ہوگئے سارے عاشق پھر کھسک خاں ہوگئے سرحد کے خان لوگ اس شعر سے بہت مزہ لیتے ہیں، خشب کےمعنیٰ ہیں لکڑی یعنی بڑی عمر ہوگئی تو اعضا سخت ہوگئے۔ اور اﷲ تعالیٰ کیسے دل کا پیار لیتے ہیں؟ اس پر بھی میرا ایک شعر ہے کہ جب نظر بچاکر دل ٹوٹا تو ٹوٹے ہوئے حسرت زدہ دل کو اﷲ کا پیار کیسے ملتا ہے ؎