آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہوجاتا ہے تو وہ منیر بھی ہوتا ہے، روشنی دیتابھی ہے، پہلی صفت چاند کی مستنیر ہے لیکن پھر وہ خود بھی منیر ہوجاتا ہے۔ سالک اور مرید کادل بھی اﷲ تعالیٰ کی تجلیات سے مستنیر رہتا ہے لیکن جب سورج اور چاند کے درمیان میں زمین کا کرہ اور گولا حائل ہوتا ہے تو جتنا حائل ہوتا ہے اتنا چاند اندھیر اور بے نور ہوجاتا ہے اورجب پورا گولا آجاتا ہے تو چاند ڈوب جاتا ہے اور جتنا جتنا زمین کا گولا آتا جاتا ہے اندھیرا بڑھتا جاتا ہے اور جس دن زمین کاگولا بالکل الگ ہوجاتا ہے چاند پورا روشن ہوجاتا ہے۔ تو جن لوگوں نے اپنے نفس کے مٹانے میں جان کی بازی لگا دی خوش نصیبی ہے ان کی اور جنہوں نے اپنی جان کی بازی نہیں لگائی یہ خوش نصیب نہیں ہیں، یہ بندے کی بد نصیبی ہے کہ وہ اﷲ پر مرنے سے کتراتا ہے کہ بُری خواہشات کو میں کیسے ختم کروں؟ کچھ تھوڑی تھوڑی حرام لذت بھی کشید کرتے رہو تو یہ نصیبے والے نہیں ہیں، ابھی اس کو نصیبِ اولیاء حاصل نہیں ہے، نصیبِ دوستاں اور نصیبِ اولیاء اُن ہی کو حاصل ہے جو جان کی بازی لگا کر اپنے قلب کے پورے دائرے کو نفس کی حیلولت سے محفوظ کرلیتے ہیں پھر ان کے قلب کا من و عن، من البدایۃ الی النھایۃ پورا دل چاند کی طرح روشن ہوجاتا ہے، نفس کی حیلولت کو ختم کرنے میں وہ جان کی بازی لگا دیتے ہیں کہ جان دے دیں گے مگر اﷲ کو ناراض کرکے حرام لذت کشید نہیں کریں گے، یہ ہے نصیبِ دوستاں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اﷲ والوں کا نصیبہ مل جائے تو ذرا ہمت سے کام لو جو اﷲ نے آپ کو دی ہے، ہمت چور مت بنو، مالک پر مرنا اپنے جینے کی ضمانت کا انتظام کرنا ہے، اﷲ پر مرنا اپنے جینے کا سامان کرناہے، جو حیات خالق پر فدا ہوتی ہے وہ ایسی حیات یافتہ ہوتی ہے کہ جس کی صحبت سے دوسروں کو حیات ملتی ہے، وہ حیات ساز ہوتی ہے، کائنات کے حمقاء سمجھتے ہیں کہ صوفیوں کو کیا ملے گا؟ ٹیڈوں کو بھی نہ دیکھو ٹیڈیوں کو بھی نہ دیکھو، ہر حرام سے بچو تو پھر یہ دنیا میں کیسے رہیں گے؟ تصوف کو بعض بے وقوف غارت گرِحیات سمجھتے ہیں۔ میرا شعر ہے ؎ غارت گرِ حیات سمجھتی تھی کائنات میری نظر میں غم ترا جانِ حیات ہے دنیا والے بے وقوف سمجھتے تھے کہ مولویوں کو، صوفیوں کو، اﷲ کے عاشقوں کو کیا ملے گا، یہ نہ دیکھو وہ نہ دیکھو، کالی کو نہ دیکھو گوری کو نہ دیکھو، تو پھر یہ کیا دیکھیں؟ ارے ظالمو! یہ اپنے مولیٰ کو دیکھیں گے جو سارے عالم کی