آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
دل میں اﷲ کا نور آتا ہے تو سورج اور چاند بھی اس کے گدا، محتاج اور فقیر بن جاتے ہیں ؎ جس نے اُٹھایا شیخ کے نازِ طریق کو راہِ فنا سے رہبرِ راہِ خدا ہوئے یعنی جس نے اپنے پیر کا، مرشدکا ادب، خدمت، محبت کی اور اس کے ساتھ وقت لگایا، اﷲ کی رحمت سے آگے چل کر اپنے نفس کو مٹانے کی برکت سے اس کو بھی اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کا رہبر بنادیتے ہیں۔مگر رہبر بننے کی نیت سے خدمت نہ کرے کہ مجھے خلافت مل جائے اس لیے خدمت کرتا ہوں، بنیت حصولِ خلافت خدمت کرنا یہ اخلاص کے منافی ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ اﷲ والوں سے اﷲ کے لیے محبت کرو پھر جو چیز ملنی ہوتی ہے وہ مل ہی جاتی ہے، مگر نیت نہ کرو، جیسے مکہ شریف جاتے ہوئے شروع سے سمندر دیکھنے کی نیت نہ کرو، سمندر تو خود ہی نظر آئے گا ؎ دیکھا اسی کو فائزِ منزل سلوک میں جو منزلِ مجاز سے بالکل جدا ہوئے یعنی جو عشقِ لیلیٰ سے نجات پاگئے مولیٰ اسی کو ملتا ہے، اورجو کالی گوری کے چکر میں رہتا ہے تو اس کا فرسٹ فلو ر اس کو گراؤنڈ فلور کی گندی نالیوں میں ذلیل و خوار اور بے عزت کرتا ہے اور وہ مولیٰ سے بھی محروم ہوجاتا ہے، مرنے کے بعد یا ہاسپٹل میں ایڈ مٹ ہونے کے بعد نہ کوئی کالی کام آتی ہے نہ گوری کام آتی ہے، وہاں چِلّاتارہتا ہے ہائے مرے ہائے مرے، پھر خدا ہی کو یاد کرتا ہے، یہ کوئی شریفانہ زندگی نہیں ہے۔ تفسیر روح المعانی میں حدیث ہے : اُذْکُرُوا اللہَ فِی الرَّخَاءِ یَذْکُرْکُمْ فِی الشِّدَّۃِ ؎ اﷲ کو سکھ میں یاد کرو اﷲ دُکھ میں تم کو یاد رکھے گا، لیکن یہ نہیں کہ جب آرام سے ہو سکھ میں ہو تو لیلاؤں کے چکر میں ہو اور جب کوئی بیماری ہوگئی، گردے میں درد اُٹھا، پیشاب بند ہوگیا، کینسر ہوگیا تب یا اﷲ!یااﷲ! کررہے ہو، اس وقت یااﷲ!یا اﷲ! تو کرنا چاہیے، مگر یہ آدمی شریف نہیں کمینہ ہے، جو عیش میں خدا کو بھول جاتا ہے اور دُکھ میں خدا کو پکارتا ہے، یہ نافرمانِ پیغامِ نبی ہے۔ ------------------------------