آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مولانا گاردی نے آج میری اس مجلس میں شرکت فرما کر میرے قلب کو مسرور کر دیا،یہ میری آخری نصیحت ہے، کیوں کہ میں زندگی کے اس مقام پر ہوں کہ اب آگے کا کچھ نہیں پتا، ستّر سے اوپر ہونے کے بعد ایکسٹینشن ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اﷲ کے فضل و رحمت سے اختر مولانا شاہ محمد احمد صاحبرحمۃ اﷲ علیہ کی آغوش میں بالغ ہوا، مولانا ایسی شخصیت تھے کہ بڑے بڑے علماء یہاں تک کہ میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے بھی ان کو اپنا شیخ بنایا تھا، اور مفتی محمود الحسن صاحب نے مجھ سے فرمایا تھا کہ سلسلۂ نقشبندیہ میں پورے ہندوستان میں ان سے بڑا کوئی صاحبِ نسبت نہیں ہے۔ تو تین سال اختر کو اﷲ نے ایسے بڑے بزرگ کے ساتھ رکھا اور سترہ سال شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ رکھا۔یہ بتاؤ کہ جب دو دریا ملتے ہیں تو دریا کا پاٹ بڑھتا ہے یا نہیں؟ یا ویسا ہی رہتا ہے؟ اور تیسرا دریا ہردوئی کا جب ملا تو اتنا طوفان آیا کہ گیٹ اٹھانے پڑے، جیسے دریا میں پانی بڑھ جاتا ہے تو بند کے گیٹ اُٹھانے پڑتے ہیں تاکہ اضافی پانی نکل جائے اور بند کو نقصان نہ پہنچے۔ پہلے میں تقریر نہیں کرتا تھا، چالیس سال کی عمر تک میں نے کوئی تقریر نہیں کی، خاموشی سےحضرت پھولپوری کی بات لکھتا تھا پھر جب حضرت والا ہردوئی کا دریا ملا تو گیٹ اُٹھ گئے، جیسے یہاں ساؤتھ افریقہ میں سیلاب آیا تھا تو سب گیٹ اٹھا دیے گئے تھے ورنہ پل بہہ جاتا، میں نے خود جا کر بہ چشم دید دیکھا تھا۔ جہاں دو دریا ملتے ہیں اسے سنگم کہا جاتا ہے اور جہاں تین دریا ملتے ہیں اسے تربینی کہتے ہیں، تو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم کے صدقہ میں اختر کے سینے میں تین بزرگوں کے دریاؤں کی تربینی ہے۔ خود میرے شیخ مولانا ابرار الحق صاحب نے بنگلہ دیش میں میری تقریر شروع ہونے پر سارے علماء کو اپنے پاس سے ہٹا دیا اور فرمایا کہ میرے پاس مت بیٹھو، جاؤ! اب اختر تم لوگوں کو بریانی کھلائے گا۔ تو میری تقریر کا نام میرے شیخ نے بریانی رکھا ہے۔ کیوں بھئی بریانی کا مزہ آیا کہ نہیں؟ شیخ مرید کو ایسے ہی نہیں کہتا، اﷲ کی طرف سے اس کی زبان بولتی ہے۔ آج میں نے بعض دوستوں کو روک لیا تھا، لیکن میرا دل ایمان اور دیانت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ یہ دردِ دل منتقل ہوجائے گا تو پھر بخاری شریف کا درس صحیح معنوں میں درس ہوگا۔