آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہیں اور ہم اس اعلیٰ مقام کو حاصل کیے بغیر مر گئے تو کتنا پچھتانا پڑے گا! تو تفسیر روح المعانی میں ’’صدّیق‘‘ کی تینتعریف بیان کی گئیں ہیں۔ نمبر۱:صدّیق وہ ہے اَلصِّدِّیْقُ ہُوَ الَّذِیْ لَا یُخَالِفُ قَالُہٗ حَالَہٗجس کی زبان اور دل ایکہو، یہ نہیں کہ زبان سے کچھ کہتا ہے دل میں کچھ ہے، اس کا حال اور قال ایک ہو۔ دوسری تعریف ہے اَلَّذِیْ لَایَتَغَیَّرُ بَاطِنُہٗ مِنْ ظَاہِرِہٖجس کا تعلق مع اﷲ اتنا قوی ہو کہ کسی ماحول میں ہو، چاہے ہیتھرو ایئرپورٹ ہو یا مانچسٹر ایئر پورٹ ہو وہاں بھی اس کا ٹسٹر صحیح ہو ؎ جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں کوئی محفل ہو تیرا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں ایسا قوی النسبت ہو کہ جیسے مسجدِ حرام میں ملتزم سے چپٹ کر روتا ہے، اس کا روضۂ مبارک پر جو ایمان ہوتا ہے مارکیٹ میں بھی ویسا ہی ایمان ہو، ریل میں بھی ویسا ہی ایمان ہو، جہاز میں بھی ویسا ہی ایمان ہو، کیوں کہ خدا ہر جگہ ہے ،اگر خدا کے لیے ملتزم پر رو رہا تھا تو جہاز پر بھی تو خدا ہے، یہاں تمہیں رونا کیوں نہیں آتا؟ یہاں کیوں آنکھیں حرام کاری میں مبتلا ہیں؟ تیسری تعریف ہے: اَ لَّذِیْ یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رِضَا مَحْبُوْبِہٖ؎ جو اﷲ تعالیٰ پر دونوں جہاں فدا کردے۔ دنیا کیسے فدا کرے؟ کہ کوئی کام اﷲ کی مرضی کے خلاف نہ کرے اور آخرت کیسے فدا کرے؟ سوال ہوتا ہے کہ ہم دنیا تو اﷲ پر فدا کردیں گے، مگر آخرت کیسے فدا کریں؟ تو اس مقامِ صدّیقیت کاسبق ہم کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ تم نیک کام بھی کرو رضائے خدا کے لیے، رضائے حق کے لیے اورجنت کو درجۂ ثانوی رکھو: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَ الْجَنَّۃَ جنت پر اﷲ کی رضا مقدم کردو کہ اے اﷲ! ہم نیک کام کرتے ہیں آپ کو خوش کرنے کے لیے اورجنت درجۂ ثانوی ہے کہ آپ جس سے خوش ہوتے ہیں اس کو جنت دیتے ہیں، تو ہم جنت بھی مانگتے ہیں، اور جب گناہ سے بچو تو دوزخ کے ڈنڈے سے نہیں، بلکہ اے اﷲ! ہم اس لیے گناہ چھوڑتے ہیں کہ آپ کی ناراضگی ہمیں برداشت نہیں، دوزخ کی تکلیف سے زیادہ آپ کا ناراض ہونا ہمارے لیے باعثِ غم ہے: وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِ؎ اے اﷲ! ہم تیری ناراضگی سے پناہ چاہتے ہیں اور جہنم سے۔ تو جہنم سے زیادہ اے خدا! ------------------------------