آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
رہتے اور اﷲ پاک کی محبت اور خشیت اور تقویٰ کے پھول نظر آتے ہیں اور اﷲ کی ولایت او ر دوستی کا باغ نظر آتا ہے، اور جس کے دل کی زمین پر کوئی مربّی نہیں ہوتا اس کا یہی حشر ہوتا ہے، جیسا اس زمین کا ہے جس کا کوئی مالی نہیں ہے، وہاں کانٹے پڑے ہوئے ہیں اور گدھے، گھوڑے اور کتے کے پاخانے اور گندگی پڑی ہوئی ہے۔ تو ایک آملہ جو تربیت کی برکت سے مربّہ بنا، اس کی قیمت کتنی بڑھ گئی! اور اس کے رکھنے کی جگہ بھی شیشے کا شاندار مرتبان بنا۔ اب دوسرے آملہ کا حال سنو۔ اس نے کہا کہ مجھ سے پیروں کے یہ ناز و نخرے برداشت نہیں ہوتے، مجھے آزادی پسند ہے، میں پیری مریدی کا قائل نہیں ہوں، مجھے مربّی وربّی نہیں چاہیے، میں مربّہ بنوں یا نہ بنوں مجھ کو آزادی محبوب ہے۔ تو وہ آملہ جو درخت سے ہرا ہرا گرا تھا سورج کی شعاعوں سے اس کا منہ کالا ہوگیا، سائز میں بھی سکڑ کر چھوٹا ہوگیا، صورتاً و سیرتاً تباہ و برباد ہوگیا، پھر کوئی حلوائی اس کو مربّہ بنانے نہیں لے گیا، البتہ وہاں ایک ہندو بنیا آیا اور جتنے سوکھے ہوئے بے تربیت آملے پڑے تھے ان کے منہ پر جھاڑو مارتا ہے اور بورے میں بھر لیتا ہے اور لے جا کر دکا ن میں رکھتا ہے پھر اس کو کوٹ کر کنستر میں بھرتا ہے۔ مربّہ آملہ شیشے کے مرتبان میں ہے اور یہ ٹین کے کنستر میں ہے۔ اس کے بعد جب کسی کو پاخانہ نہیں ہوتا تب حکیم اس کو لکھتا ہے کہ سفوف ترپھلہ یعنی آملہ بقدرِ کف دست یعنی جتنا ہاتھ میں آئے بوقت خواب از آب گرم بخورند گرم پانی سے کھالے تو پاخانہ صاف ہوجائے گا۔ تو تربیت نہ کرانے سے اس کو بھنگی اور جمعداری یعنی پاخانہ دھکیلنے کاکام دیا گیا اور وہ دافعِ قبض ہوا اور وہ مربّہ آملہ دل کی طاقت کے لیے کام آیا، تو دونوں میں کتنا فرق ہوگیا! تو اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تزکیۂ نفس کو فرض فرما دیا، اورتزکیہ فعل متعدی ہے، انسان خود سے تزکیہ نہیں کرسکتا، تزکیہ کرانے کے لیے کوئی مزکّی ہونا چاہیے، جیسے دنیا میں ایسا کوئی مربّہ نہیں جس کا کوئی مربّی نہ ہو، ایسے ہی بغیر بزرگوں اور اﷲ والوں کے اصلاحِ نفس نہیں ہوتی، چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو۔ میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرتا ہوں کہ ایک ڈاکٹر ہے جو ہزار مریضوں کے گردوں کی پتھری نکال چکا ہو، لیکن وہی ڈاکٹر جس سے ہزاروں مریض اچھے ہوگئے اس کے گردے میں پتھری ہے، وہ اپنی پتھری خود کیوں نہیں نکال سکا؟ کیوں کہ ڈاکٹر اپنے کو بے ہوش تو کر سکتا ہے، مگر بے ہوشی کے بعد پھر چاقو چلا کر پیٹ پھاڑ کر گردوں سے پتھری کیسے نکال سکتا ہے؟ اس لیے عالِم اصلاح کے لیے دوسرے کا محتاج ہے، کیوں کہ اگر اس کے اندر تکبر کی بیماری ہے یا حسینوں سے نظر بازی کی بیماری ہے یا گناہ کی کوئی اور عادت ہے تو وہ خود اپنی بیماری کا علاج نہیں کرسکتا، کیوں؟ اس لیے کہ قاعدہ کلیہ ہے رَاْیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌبیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔