آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
لیکن پھر بھی فرمایا کہ میرے سامنے مت بیٹھو، سرمنڈانے کے بعد بھی پیچھے جاکر بیٹھو۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے یہ خود فرمایا اور جن سے فرمایا وہ میرا خلیفہ ہے مولانا اسماعیل، تو وہ حضرت کے سر مبارک میں تیل لگا رہے تھے اس وقت حضرت نے خود بتایا کہ حکیم الامت نے میرا سر منڈوایا اور پھر بھی سامنے نہیں بیٹھنے دیا اور کہا کہ پیچھے بیٹھو۔ کیوں؟ اس کیوں کو میں نے ایک شعر میں پیش کیا ؎ حسن اس کا ہر طرح سالم رہا سر منڈانے پر بھی وہ ظالم رہا (احقر جامع نے عرض کیا کہ حضرت واقیۃًمنصوب کیوں ہے؟ ارشاد فرمایا کہ) وَاقِیَۃً اصل میں فعلِ محذوف کا مفعول ہے، اَلْوِقَایَۃْ مصدر ہے جو یہاں مبنی للمفعول ہے اصل میں جملہ ہے اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْوِقَایَۃَاے اﷲ! ہم آپ سے حفاظت کی درخواست کرتے ہیں۔ واقیۃً حفاظت کو کہتے ہیں، تو کَوَاقِیَۃِ الْوَلِیْدِ یعنی جیسے ماں حفاظت کرتی ہے بچے کی، تو یہ مصدر جو ہے یہ منصوب اسی لیے ہے کہ فعلِ محذوف کا مفعول واقع ہورہا ہے۔ تو اگر ماں اپنے بچوں کی محبت میں محلے کے بچوں کاکسٹم کرتی ہے اور ان کی جیبیں ٹٹولتی ہے اور انہیں طمانچے بھی مارتی ہے کہ تم مٹی کیوں لائے؟ تم میرے بچے کو خراب کرنا چاہتے ہو؟ تو اﷲ تعالیٰ جن کو اپنا مقبول بناتے ہیں ساری دنیا کے حسینوں کا کسٹم کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں اس بندے کے تقویٰ کی برکت سے ہیبت اور خوف ڈالتے ہیں، اور اگر اس کی نیت خراب ہو کہ میں اس صوفی کو برباد کروں گا، تو اﷲ تعالیٰ کا غیبی طمانچہ لگتا ہے اور اس کو اﷲ توفیق دیتے ہیں، یہ ان حسینوں کو سختی سے ڈانٹتا ہے کہ خبردار جو میرے سامنے بیٹھے! داہنے بیٹھو یا بائیں۔ تقریر میں اگر کوئی اَمرد لڑکا سامنے ہو تو اس کو حکم دیتا ہے کہ تم اِدھر بیٹھو یا اُدھر بیٹھو، سامنے مت بیٹھو اور پھر یہ شعر پڑھتا ہے۔ اب میرا شعر سنیے ؎ تحمل حسن کا مجھ کو نہیں ہے بہت مجبور ہوں میں اپنے دل سے بچاتا ہوں نظر کو اپنی ان سے کہ دھوکا کھا نہ جاؤں آب و گِل سے