آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے پیش نظر تو مرضی جانا نہ چاہیے پھر اس نظر سے جانچ کر تو کر یہ فیصلہ کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے ہماری زندگی مالک پر وقف ہے، فکر نہ کرو، اﷲ تعالیٰ پر جو مرتا ہے وہ خود ان کو سنبھالتا ہے، جو اﷲ پر فدا ہوتا ہے اس کی آبرو کو اﷲ تعالیٰ سنبھالتا ہے۔ عافیت کا پہلاترجمہ ہےکہ دین میں فتنہ نہ ہو یعنی سر سے، پیر سے کسی عضو سے ہم گناہ میں مبتلا نہ رہیں، اگر خطا ہوجائے تو فوراً توبہ واستغفار سے اﷲ کو راضی کرلیں، دیر نہ کریں تاکہ توبہ واستغفار کی برکت سے ہمارے گناہ کراس نہ ہوں، بلکہ مٹ کرختم ہی ہوجائیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارے گناہوں کی جگہ نیکیاں لکھ دی جائیںفَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ کا انعام مل جائے۔ لیکن یہ نعمت تین شرطوں سے ملے گی اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا یعنی ایمان بھی ہو، تو بہ بھی ہو اور نیک عمل بھی کرتا رہے، یہ نہیں کہ شراب پیتا ہے اور روزانہ کہتا ہے اﷲ توبہ! اﷲ توبہ! لہٰذا عملِ صالح بھی کرو اور گناہوں سے بھی بچو، تین شرطوں سے مقامِ تبدیل سیئات کی نعمت ملے گی۔ اب اگر کوئی کہے کہ بغیر ایمان کے تو توبہ قبول ہی نہیں ہوتی، کافر کی کفر کی حالت میں توبہ قبول ہوگی؟ پھر اﷲ تعالیٰ نے اِلَّا مَنْ تَابَ کو اٰمَنَ پر مقدم کیوں فرمایا؟ تو میں نے فوراً تفسیر دیکھی۔ جب مجھے کھٹک ہوتی ہے تو میں اپنی عقل سے نہیں کام لیتا، لہٰذا میں نے فوراً روح المعانی دیکھی۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہاںاِلَّا مَنْ تَابَسے مراد تَابَ عَنِ الْکُفْرِ وَالشِّرْکِہے کیوں کہ حالتِ کفر اور شرک سے توبہ کر لو پھر ایمان قبول ہوگا۔؎ تو عافیت کے دوسرےمعنیٰ یہ ہیں اَلسَّلَامَۃُ فِی الْبَدَ نِ مِنْ سَیِّیِٔ الْاَسْقَامِ وَ الْمِحْنَۃِ کہ جسم سخت بیماری میں مبتلا نہ ہو،جیسے گردے خراب ہوجائیں، فالج ہوجائے، ایکسیڈنٹ میں ہاتھ پیر ٹوٹ جائیں، کینسر وغیرہ ہوجائے، تو یہ سخت بیماریاں ہیں ان سے بدن سلامت رہے، اور نزلہ زکام حرارت وغیرہ یہ سخت بیماریاں نہیں ہیں اور وَ الْمِحْنَۃْسے مراد ہے کہ ہر وقت سخت محنت میں مبتلا ہیں یا روزی مصیبت سے مل رہی ہے۔ ------------------------------