آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ؎ ہم اس کی تمام بُرائیوں کو مٹا کر کے نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ بُرائیوں کو نیکیوں سے تین طریقے سے تبدیل کرتا ہے یعنی تبدیلی کے تین طریقے ہوتے ہیں: پہلا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص فلمی گانے گاتا ہے، اب حج کر آیا، تو بہ کرآیا، تو نامہ اعمال میں جہاں اس کا گانا لکھا تھا وہ مٹا کر اﷲ نے لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ لکھ دیا، جن آنکھوں سے عورتوں کو دیکھ رہا تھا اس گناہ کو معافی اور توبہ کی برکت سے کاٹ کر وہاں کسی اﷲ والے کو دیکھنے کے عمل کو لکھ دیا،یاکعبہ شریف دیکھنے کا عمل یا اﷲ کی مخلوقات کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنے کا ثواب لکھ دیا۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کی بُرائیوں کو مٹاکر اﷲ تعالیٰ اس کی نیکیوں کولکھ دیتے ہیں، بُرائیوں کی رِیل صاف کرکے اس پر نیکیوں کی رِیل چڑھا دیتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ بندے کے گناہوں کے تقاضوں کی شدت کو نیکیوں کے تقاضے کی شدت سے بدل دیتے ہیں یعنی ملکۂ تقاضائے معصیت کو ملکۂ تقاضائے حسنہ سے تبدیل کردیتے ہیں، ملکۂ تقاضائے سیٔہ کو ملکۂ تقاضائے حسنہ سے بدل دیتے ہیں یعنی جس شدت سے ہر وقت گناہوں کے لیے پاگل ہوتا تھا، ہر وقت دل چاہتا تھا کہ گناہ کرو، عورتوں کو دیکھو، حسینوں کو دیکھو، نظر لڑاؤ ،اب اُس کو اﷲ تعالیٰ اسی شدت سے نیکیوں کا ملکہ عطا کرتے ہیں۔یہاں ملکہ کے معنیٰ ہیں عادت کا رُسوخ، جیسے کہتے ہیں کہ شعر کہنے میں ان کو بڑا ملکہ ہے، تو یہاں ملکہ سے رُسوخِ خصلت، رُسوخِ عادت مراد ہے۔ اب اگر ملکہ کی شرح نہ کرو تو لوگ کہیں گے کہ بھئی یہاں تو ملکہ ایلز بتھ کا تذکرہ ہورہا ہے، تو اﷲ تعالیٰ ملکۂ تقاضائے معصیت کو ملکۂ تقاضائے حسنات سے بدل دیتے ہیں یعنی جس کے دل میں ہر وقت گناہ کا تقاضا ہے اس کو ہر وقت نیکیوں کا تقاضا ہونے لگے گا۔ جیسے بعض لوگ گھر سے باہر اسی نیت سے نکلتے ہیں کہ اُس مارکیٹ چلو جہاں مرد عورت مل کر چلتے ہیں اور خوب رش ہوتا ہے، اس بہانے ہم کچھ حرام مزے لے لیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرشتوں کو حکم دیں گے کہ اس بندے کے تمام صغائر کو مٹا دو اور وہاں ہماری طرف سے حسنات لکھ دو۔ پہلے بندے کی اپنی کمائی تھی، اس نے جو کمایا تھا اس کے مکسوبات تھے اور یہاں میرے موہوبات ہوں گے، لہٰذا اس کی بُرائیوں کو کاٹ کر وہاں نیکیاں لکھ دو تو اوّل میں او رثانی میں کیا فرق ہوا؟ اوّل میں اسی کی کمائی تھی، اسی کے مکسوبات تھے اور یہاں اﷲ تعالیٰ کی ------------------------------