آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
گے یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُاے وہ جانجو صرف میری یاد سے چین پارہی تھیاِرۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ تو میرے پاس واپس آجا کہ تو کامیاب ہوگئی ۔ نفسِ مطمٔنہ کا لقب مرتے وقت ملے گا ۔ جو جان زندگی بھر اللہ کی یاد سے مطمئن تھی تو واپسی کے وقت اللہ نے اس کا وہی نام رکھ دیا یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ اے وہ مطمئن جان جس کو میری یاد میں اتنا مزہ آتا تھا کہ جنت سے زیادہ تو مجھ سے پیار کرتی تھی، کیوں کہ جنت مخلوق ہے میں خالق ہوں اور یہ خالقِ جنت پر فدا تھی، لہٰذا اب خالقِ جنت کے پاس آجا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نفس کو دو لقب اور دیں گے رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً؎ اے نفسِ مطمٔنہ! تو راضیہ بھی ہے اور مرضیہ بھی۔آج تو میرے پاس خوش خوش آرہی ہے، کیوں کہ میری محبت تیرے اندر اپنی جان سے زیادہ، اہل و عیال سے زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ تھی اس لیے تو راضیہ ہے، خوش ہے، کیوں کہ جو تیری جان سے زیادہ تجھے احب تھا اس مولیٰ کے پاس تجھے بلایا جارہا ہے۔ اے نفسِ مطمٔنہ! تو جس سے یہ دعا مانگتی تھی: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ؎ وہی مولیٰ اب تجھے اپنے پاس بلارہا ہے ۔ راضیہ امر نہیں ہے خبر ہے کہ تو خوش ہے اپنے مولیٰ کی طرف آنے کے لیے کیوں کہ ذکر کی برکت سے ذاکر اب اپنے مذکور کی طرف آرہا ہے، ذاکرِ اسم اب اپنے مسمّٰی کے پاس آرہا ہے کہ جن کا نام ساری زندگی لیا اس مولیٰ سے آج ملنے کا وقت آرہا ہے ؎ خرّم آں روز کزیں منزلِ ویراں بروم راحتِ جاں طلبم و از پئے جاناں بروم آج وہ مبارک دن ہے کہ میں ویرانۂ دنیا سے اپنے مولیٰ کے پاس جارہا ہوں ۔ اب میری جان کو راحت مل جائے گی کہ آج میں اپنے محبوبِ حقیقی کے پاس جارہا ہوں ۔ اس طرح مرتا ہے اللہ والا۔ اللہ خبر دے رہا ہے کہ اللہ والے جب مرتے ہیں تو غمگین نہیں ہوتے کہ ہائے بیوی بچے چھوٹ گئے، مکان چھوٹ گیا، کاروبار چھوٹ گیا، مرسڈیز چھوٹ گئی۔ میرا عاشق جب آتا ہے تو راضیہ ہوتا ہے، خوش ہوتا ہے۔ ------------------------------