آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
صدیقین کی خط انتہا تک پہنچ جائے اور زبان سے ہر وقت علومِ معرفت جاری ہوں، لیکن ناف کے نیچے آنتوں میں مشک وزعفران نہیں ہوگا۔ ناف کے نیچے جو نجاستیں ہیں وہ کسی کی ولایت کی وجہ سے مبدل بہ مشک وزعفران اور مبدل بہ عرقِ گلاب نہیں ہوجاتیں،اور یہ کچھ مضر نہیں ہے۔ یہ تکوینی راز ہے۔ جس طرح خوشبودار پھولوں کے پودوں کے نیچے گوبر اور کھاد ڈالتے ہیں اور اسی غذا سے گلاب اور چنبیلی کے پودے بڑھتے ہیں، لیکن پھولوں میں اس کھاد کی بدبو اللہ تعالیٰ نہیں آنے دیتے جبکہ اس کھاد پر ہی پھولوں کا ارتقاء موقوف ہے، اگر گوبر اور کھاد نہیں ڈالو گے تو پودا نہیں بڑھے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ قاہرہ کو دِکھاتے ہیں کہ جس طرح تم پھولوں کے پودوں کی جڑوں میں کھاد ڈالتے ہو اور کھاد پر پانی اور خاک ڈالتے ہو، جس سے کھاد کی گرمی معتدل ہوکر پودوں کی بقاء اور ارتقاء کا سبب بنتی ہے، اسی طرح تم بھی اپنے گناہوں کے تقاضوں کی کھاد پر میرے نور کی ٹھنڈک اور پانی ڈالتے رہو۔ اسی سے تمہارے تقویٰ کا درخت ہرا بھرا ہوگا اور تمہاری زبان سے ہم علوم و معرفت کی خوشبو پیدا کریں گے۔ بس اتنا کرو کہ تقاضوں کی کھاد پر خاک ڈالتے رہو، یعنی اس پرعمل نہ کرو، یہ تقاضے ایندھن ہیں، ایندھن ہم نے جلانے کے لیے دیا ہے، یہ کھانے کے لیے نہیں ہے، اس کے جلانے سے ہی نورِ تقویٰ پیدا ہوگا۔ بریانی پکانی ہے تو لکڑی کوئلہ چولہے میں ڈال کر آگ میں جلاتے ہیں۔ بُرے تقاضوں کو اللہ کے خوف کی آگ میں ڈالتے رہو اور تقویٰ کی بریانی پکاتے رہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہوائی جہاز کو اگر مخالف ہوا ملتی ہے تو پائلٹ جہاز کی رفتار کو تیز کردیتا ہے جس سے جہاز جلد منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب کشتی طوفان میں پھنستی ہے تو کشتی کا ناخدا ہر وقت کہتا ہے یا خدا میری کشتی کو ڈوبنے سے بچانا یعنی مجھے گناہوں کے اندر غرق ہوکر رُسوا نہ ہونے دینا۔ کشتی کا ناخدا طوفانوں کی وجہ سے کثرتِ یا خدا میں مشغول ہوکر باخدا ہوجاتا ہے، اس کی نسبت مع اللہ بہت قوی ہوجاتی ہے۔ اسی کو احقر نے ان اشعار میں بیان کیا ہے ؎ دریا میں دوستو اگر ماہرِ فن ہو ناخدا کشتی بھنور میں جب پھنسے نعرہ لگائے یا خدا اخترؔ یہ ناخدا بھی جب طوفاں میں پھنس گیا کبھی کثرتِ ’’یا خدا‘‘ سے وہ کیسا ہوا ہے باخدا تقاضوں کی شدت سے مومن اللہ کی طرف رجوع اور فریاد زیادہ کرتا ہے کہ اے اللہ!یہ بُرے تقاضے