آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اس کے علاوہ وَاعْفُ عَنَّامیں ضمیر مستتر ہے، ضمیر کی دو قسمیں ہیں: نمبر ۱۔ضمیر مستتر، نمبر ۲۔ ضمیر بارِز، تو معافی مانگنے سے پہلے چوں کہ تمہاری آنکھوں میں گناہوں کی وجہ سے موتیا اُترا ہوا تھا تو حالت ِگناہ میں اور حالت ِظلماتِ معصیت میں ہونے کی وجہ سے تم ہم سے حالت ِاستتار میں تھے، گناہوں کے اندھیروں کی وجہ سے محجوب تھے، حجابات میں تھے، تم ہم کو نہیں دیکھ سکتے تھے اس لیے تم کو ضمیر بارز کی اجازت نہیں تھی، ضمیر مستتر کی اجازت تھی وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْلَنَا، وَارْحَمْنَاسب میں ضمیرمستتر اَنْتَچھپی ہوئی ہے کہ آپ معاف کردیجیے مگراَنْتَکہنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن جب ہم نے تم کو معاف کردیا، جب مغفرت ہوگئی، معافی ہوگئی، تم سے ہم نے حجابات ہٹا لیے اور تم انوار کے عالم میں آگئے تو گناہوں کی وجہ سے جو ضمیر مستتر تھی وہ ختم ہوگئی، لہٰذا اب اَنْتَ مَوْلٰنَا کہو کہ آپ ہی میرے مولیٰ ہیں۔ جب حجابات ہٹ گئے اور ہم نے اپنے غصے کے پردے ہٹا لیے تو اب تم میرے سامنے ہو ؎ تم ہمارے ہم تمہارے ہو چکے دونوں جانب سے اشارے ہوچکے لہٰذا اب کہو اَنْتَ مَوْلٰنَا اب اَنْتَ کی اجازت ہے۔اَنْتَ بتا رہا ہے کہ گناہوں کے حجابات ختم ہوچکے، ورنہ جب تک وہ سامنے نہ ہوں کوئی اَنْتَ نہیں کہہ سکتا،یہی دلیل ہے کہ اب تمہارے سامنے سے گناہوں کے حجابات ہٹ گئے، اب ہم کواَنْتَ مَوْلٰنَا کہو۔ اَنْتَ مَوْلٰنًاکی تین تفسیریں ہیں:اَنْتَ سَیِّدُنَاآپ میرے سردار ہیں، آقا ہیں، وَمَالِکُنَا اور آپ ہمارے مالک ہیں، وَمُتَوَلِّیْ اُمُوْرِنَااور ہمارے اُمور کے اور کاموں کے بنانے والے ہیں فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ اب ہمیں دشمنوں سے نہ پٹوائیے کہ ہم آپ کے بن چکے ہیں۔ یہ روح المعانی کی تفسیر ہے۔ واہ رے مفسرِ عظیم علامہ آلوسی!یہ صاحبِ نسبت بزرگ تھے، مولانا خالد کُردی کے مرید تھے۔ وَاعْفُ عَنَّا…الخ کی یہ تفسیر لکھ لو، آپ کو پکی پکائی کھچڑی مل گئی ورنہ کتابوں میں تلاش کرنےمیں بڑی محنت لگتی۔ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ