آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اِن حسینوں سے دل بچانے میں میں نے غم بھی بہت اُٹھائے ہیں منزلِ قرب یوں نہیں ملتی زخمِ حسرت ہزار کھائے ہیں خونِ تمنا سے دل لال ہوجاتا ہے۔ جب مشرق لال ہوتا ہے تو دنیا کو سورج ملتا ہے، اور ایک ملتا ہے، لیکن خونِ تمنا سے خدائے تعالیٰ کے عاشقوں کے قلب کا مشرق، مغرب، شمال، جنوب سب سُرخ ہوجاتا ہے اور ان کے قلب کے ہر اُفق سے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے بے شمار آفتاب طلوع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کوئی ان کے لیے اپنے دل کا خون کرے اور ان کی رحمت اس دل کو پیار نہ کرے۔ ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک جمبوجہاز پر چار سو آدمی بیٹھے ہیں، ان میں سے تین سو ننانوے ایئر ہوسٹسوں کو دیکھ کر مزہ لے رہے ہیں اورنمک حرام چکھ رہے ہیں، لیکن اللہ کا ایک مسکین بندہ نظر بچا رہا ہے، غم اُٹھا رہا ہے ، اس کا بھی دل تو چاہتا ہے، لیکن اپنے اللہ کو، اپنے مالک اور پالنے والے کو خوش کرنے کے لیے اپنی خوشیوں کا خون کرتا ہے، تو کیا ارحم الراحمین ایسے حسرت زدہ اور غم کے مارے دلوں کا پیار نہیں لے گا؟ ارے ایسا پیار عطا فرماتے ہیں جس کی لذت کو کوئی دوسرا نہیں جان سکتا۔ ان کے لب نظر نہیں آتے، لیکن ان کا پیار دل محسوس کرتا ہے۔میرا ایک فارسی شعر ہے ؎ از لبِ نادیدہ صد بوسہ رسید من چہ گویم روح چہ لذت چشید (جامع عرض کرتا ہے کہ اسی مضمون کو تائبؔ صاحب نے بھی کیا خوب بیان کیا ہے اور گویا اردومیں حضرت والا کے شعر کا ترجمہ کردیا ہے ؎ محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے اُس چومنے والے کے ہیں لب اور طرح کے دوسری مثال یہ ہے کہ ماں نے کہا کہ بیٹا تم کباب مت کھانا، کیوں کہ تمہیں دست آرہے ہیں اور اس کے دوسرے بچے اس کو دِکھا دِکھا کر کباب کھارہے ہیں۔ بچہ رونے لگتا ہے تو ماں دوڑ کر اس کو گود میں اُٹھا کر اس کے