آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہے؟مفتی صاحب نے کہا کہ بہت نقصان ہے، جب بچے رضائی اوڑھتے ہیں تو اس میں پیشاب کرتے ہیں اور جب بالغ اوڑھتے ہیں تو ا س میں احتلام کرتے ہیں، تو فرمایا کہ وہ شخص اگلے اسٹیشن پر اتر کر بھاگ گیا۔ روایت در روایت کا مزہ اور ہے اور روایت بالروایت کا مزہ اور ہے۔ ایک دفعہ فرمایا کہ ایک ہندو نے مجھ سے پوچھا کہ سور میں اور بکری میں کیا فرق ہے؟ شکل تو دونوں کی ایک جیسی ہے پھر کیوں سور حرام ہے اور بکری کیوں حلال ہے؟ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے یہ جواب دیا کہ اگر تمہاری ماں کی شکل میری بیوی کی شکل سے مشابہ ہو تو کیا تمہاری ماں میرے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ وہ میرے پاس سے رام رام کہتا ہوا بھاگا۔ جب میں حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں کانپور جایا کرتا تھا تو وہ مجھے جلیبی کا ناشتہ کراتے تھے، اتنی شفقت و محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب جامع العلوم سے بیت العلوم تشریف لائے تو مزاحاً فرمایا کہ آپ کے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے میرے مدرسے کے طالب علم تھے۔ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا کانپور کے جس محلے میں قیام ہوتا تھا حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تقریباً روزانہ وہاں تشریف لاتے، یہی ان کی بزرگی کی علامت ہے کہ اﷲ والوں کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک دن مفتی صاحب نے حضرت پھولپوری کو دیکھاکہ غمگین ہیں تو حضرت کو ایک مضمون سناکر ہنسا دیا کہ حضرت! یہاں کانپور میں اگر کوئی کسی کو کہے کہ اومرغی کا یا اے مرغی والے تو یہ گالی سمجھی جاتی ہے۔ تو ایک آدمی مرغی لے جارہا تھا کسی نے کہا او مرغی والے مرغی بیچے گا؟ وہ سمجھ گیا کہ اس نے مجھے مرغی والا کہہ کر گالی دی ہے، اس نے جواب دیا کہ میں مالک سے پوچھوں گا کہ ایک مرغی کا …اور خریدار ہے، کس قیمت سے اس کو دوں، اس نے مرغی کاکہہ کر وقف کیا، سارا مجمع ہنس پڑا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے پڑھی نہیں ہیں، مفتی صاحب کی زبان تھی اورمیرے کان تھے، یہ روایات بہت اہم ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے حضرت مفتی صاحب سے کہا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ لَا بَأْسَ اَنْ یَّأْکُلَ مَکْشُوْفَ الرَّأْسِ اگر کوئی ننگے سر کھانا کھا ئے تو کوئی حرج نہیں ہے تو حضرت نے فرمایا کہ جب علامہ شامی نے لَا بَأْسَلکھا ہے تو تو کیوں اس میں بانس ڈالتا ہے؟ مفتی صاحب کی طبیعت میں مزاح بہت تھا۔ ہمارے یہاں عرف میں بلاوجہ ننگے سرکھانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، علامہ شامی کا زمانہ دوڈھائی سو سال پہلے کا تھا اور عرف ہی قاضی بنتا ہے۔