آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اکبر نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! آپ کا خون ہم سے نہیں دیکھا جاتا، ان کافروں نے آپ کو اس قدر تیر مارے کہ آپ کا خون بہہ رہا ہے، چناں چہ صدیق اکبر نے تلوار نکالی اور فرمایا کہ آج ایک کافر کو نہیں چھوڑوں گا اور خود بھی شہید ہوجاؤں گا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے جھپٹ کر انہیں پکڑ لیا حالاں کہ آپ کا خون بہہ رہا تھا اور فرمایا شِمْ سَیْفَکَاے صدیق! تلوار کو میان میں رکھ لو وَلَا تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ؎ اپنی جدائی سے مجھ کو غمگین نہ کرو۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جانِ پیغمبر جانِ صدیق پر فدا ہوتی ہے، جانِ صدیق محبوبِ جانِ نبوت ہوتی ہے اور صدیق کا درجہ شہید سے افضل ہے، یہ اسی حدیث سے ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ نبی کسی امتی کو درجۂ فضیلت سے محروم نہیں کر سکتا تو چوں کہ صدیق شہید سے افضل ہوتا ہے اس لیے آپ نے افضل کو روک لیا فاضل ہونے سے، یعنی ابھی صحبتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مرتبۂ صدیقیت میں اور ترقی کرنی ہے۔ اور صدیق افضل کیوں ہوتا ہے؟ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے بتایا تھا کہ صدیق کا رِنبوت کی تکمیل کرتا ہے اس لیےمِنَ النَّبِیِّیْنَکے بعد صدیقین ہے،شہداء بعد میں ہے، لیکن یاد رکھو صدیق ایک لمحہ اﷲ کو ناراض نہیں کرتا، صدیق زندہ شہید ہوتا ہے۔ اس مقام کو خواجہ صاحب نے بیان فرمایا ؎ کسی کے زندہ شہید ہیں ہم نہیں یہ حسرت کہ سر نہیں ہے ہمیں تو ہے اس سے بڑھ کے رونا کہ دل نہیں ہے جگر نہیں ہے اور مولانا رومی نے اس کی سند میں پیش کیا ہے کہ اے دنیا والو! بہت سے اﷲ کے عاشق زندہ شہید ہیں، چوں کہ وہ ہر وقت اپنی بُری خواہشات کا قتل کرتے رہتے ہیں اس لیے ان کی شہادت معتمد ہے۔ اگر سب بڑے بڑے علماء شہید ہوجائیں تو دین کیسے پھیلے گا؟ اس لیے جو بڑے علماء ہیں ان کو صفِ اوّل میں جاکر شہید ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اب رہ گیا یہ کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کیوں پیش پیش رہتے تھے؟ تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا وعدہ کیا تھا وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اﷲ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا، اسی لیے آپ نے پہرہ بھی ہٹادیا تھا کہ اب میرا پہرہ مت دو، اﷲ نے میری حفاظت کی کفالت قبول کر لی ہے۔ ------------------------------