آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ابدال، سارے غوث و اقطاب میں کسی کی معیتِ الٰہیہ منصوص من اللہ نہیں ہے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تعلق مع اللہ منصوص من اللہ ہے، کیوں کہ ان کا تعلق مع اللہ قرآنِ پاک میں نازل ہوا ہے جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا تھا لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا ؎ پس جس کے تعلق مع اللہ کا وحی الٰہی سے ثبوت مل جائے اس میں شک کرنا کفر ہے۔ اس لیے حضرت صدیق اکبر کے تعلق مع اللہ میں شک کرنا کفر ہے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد جب حضرت صدیق اکبر نے مرتدین سے جہاد کا اعلان کیا تو کسی صحابی کو اس وقت جہاد کے متعلق شرح صدر نہیں تھا ۔ اس وقت ایک صحابی نے بھی آپ کا ساتھ نہیں دیا حتّٰی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے بھی آپ کے موافق نہیں تھی، اس وقت حضرت صدیق اکبر نے اپنی تلوار نکالی اور اکیلے جہاد کے لیے چل دیے فَاَخْرَجَ سَیْفَہٗ وَ خَرَجَ وَحْدَہٗاور فرمایا کہ اگر آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دیں گے تو مجھے کوئی غم نہیں، میں تنہا جہاد کروں گا کیوں کہ اے عمر ، اے عثمان ، اے علی اور اے جملہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا تمہارے لیے نازل نہیں ہوئی ۔ غارِ ثور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوائے صدیق کے اورکوئی نہیں تھا، یہ آیت میرے لیے نازل ہوئی، میرا تعلق مع اللہ منصوص من اللہ ہے ۔ اللہ میرے ساتھ ہے لہٰذا میں اکیلے جہاد کروں گا۔ پس تمام صحابہ کو اسی وقت شرح صدر ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑھ کر عرض کیا شِمْ سَیْفَکَ لَا تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَ؎ اپنی تلوار کو میان میں رکھ لیجیے اور ہم لوگوں کو اپنی جدائی سے غمگین نہ کیجیے۔ اور یہ وہی جملہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ اُحد میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا جب حضرت صدیق اکبر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول مجھ سے آپ کا خون نہیں دیکھا جاتا اور تلوار نکال لی اور کہا کہ یا آج میں کسی کافر کو نہیں چھوڑوں گا یا خود شہید ہوجاؤں گا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جھپٹ کر ان کو پکڑ لیااور فرمایا شِمْ سَیْفَکَ لَا تُفْجِعْنَا بِنَفْسِکَاے صدیق !اپنی تلوار کو میان میں رکھ لے اور اپنی جدائی سے مجھے غمگین نہ کر۔ ------------------------------