آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اور یہوَرَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ ؎ کا مظہر ہے، قرآنِ پاک میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اصحابِ کہف غریب تھے، لیکن بادشاہ کو جرأت سے ڈٹ کر جواب دے رہے ہیں کہ ہمارا رب ہمارا اﷲ ہے، تو ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتا تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ان کا کمال نہیں تھا، یہ غریب مسکین کیا جانیں کہ بادشاہ کی عظمت اور تلواروں کے سائے میں کیا کہیں، انہوں نے جو یہ جملہ کہا اس کی وجہ تھی وَ رَبَطۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ کہ ہم نے ان کے دلوں کو رابطۂ خاصہ یعنی اولیائے صدیقین کی سطح کا رابطہ نصیب فرما یا تھا، ہم نے ان کے دلوں سے رابطہ قائم کیا ہوا تھا پھر ان کے دل کو کون ڈراسکتا تھا؟ جس لومڑی کے سر پر شیر ہاتھ رکھ دے کہ گھبرانا مت ہم تمہارے ساتھ ہیں، تو وہ لومڑی چیتے کا کلہ پھاڑ دیتی ہے۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ روبہے کہ ہست او را شیر پشت بشکند کلّۂ پلنگاں را بہ مشت اور اس رابطۂ خاصہ کے بارے میں خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ تم سا کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے ہم تم ہی بس آگاہ ہیں اس ربطِ خفی سے معلوم کسی اور کو یہ راز نہیں ہے اﷲ والوں کو ہر وقت اﷲ تعالیٰ سے باتیں نصیب ہوتی ہیں مگر اس میں آواز نہیں ہوتی، اﷲ تعالیٰ کی آواز محتاجِ آواز نہیں ہے۔ آپ دیکھیے ٹیلی گرام میں فقط کٹ کٹ کٹ کی آواز آتی ہے مگر اسی سے حروف بنتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی آواز محتاجِ آواز نہیں ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ الحمدﷲ حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے فیض سے آج اشرف علی کایہ حال ہے کہ ہروقت الہام ہوتا ہے کہ اشرف علی یہ کرو یہ نہ کرو۔ خواجہ صاحب نے اسی مقام کو شعر میں پیش کردیا ؎ تم سا کوئی ہم دم کوئی دم ساز نہیں ہے باتیں تو ہیں ہر دم مگر آواز نہیں ہے ------------------------------